اقرباء میرے کریں خون کا دعوی کس پر..... ؟
آج مالیگاؤں بڑا قبرستان بم بلاسٹ کی 17 ویں برسی!!!
اسپیشل رپورٹ :خیال اثر
8 ستمبر 2006 مالیگاؤں کے بڑا قبرستان حمیدیہ مسجد اور مشاورت چوک پر ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں میں اگر سینکڑوں افراد شہید ہوئے تھے تو سینکڑوں سے زائد افراد بشمول معصوم بچے کچھ ایسا مجروح ہوئے تھے کہ آج بھی ان کے زخموں سے اٹھنے والی کسک اور ٹیسیں آنکھوں سے نیند اڑانے کا سبب بن جاتی ہیں. بم دھماکے اتنے شدید اور جانکاہ تھے کہ مالیگاؤں ہی نہیں ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری امت مسلمہ دہل اٹھی تھی. حمیدیہ مسجد کا وہ آنگن جس کے جلتے فرش پر معصوم بچے اور ہر عمر کے افراد رکوع و سجود کے بعد دست دعا دراز کئے اقوام عالم کی فلاح و بہبود کے لئے دعائے خیر کے مطلوب رہے تھے کہ اچانک بم دھماکوں کی شدت سے ان کے یوں پرخچے اڑے کہ کسی کا سر تن سے جدا ہو گیا تو کسی کے دعا کے لئے اٹھے ہاتھ شانوں سے اکھڑ کر کہیں دور جا گرے. کسی کا تن بدن خون میں نہا کر لہولہان ہو گیا تھا تو مسجد کا برآمدہ میدان جنگ کی صورت دریائے خوں سے سرخ ہو گیا تھا. چہار جانب آہ و بکاہ کا عالم یوں طاری تھا جیسے قیامت صغری برپا ہو گئی ہو. یکے بعد دیگرے ہونے والے بم دھماکوں کے تسلسل نے وہ بازگشت پیدا کی کہ جس نے بھی سنا اپنے عزیز و اقرباء کی خبر گیری کے لئے بے تحاشہ دوڑ پڑا. آن واحد میں سارا شہر یوں سناٹوں میں ڈوبا کہ کوئی کسی کی سننے کو تیار نہ رہا. ایک عالم ہو تھا کہ دلوں میں خوف و ہراس کا نظارہ پیش کرتے ہوئے دہلائے جارہا تھا کہ اب کیا ہوگا. قومی تفتیشی ایجنسیوں اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ذمہ داران کی آمد کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہو گیا. گلی کوچوں میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا کہ ایسے میں ہی سلسلہ وار بم دھماکوں کا سارا الزام مقامی پولیس انتظامیہ اور قومی تفتیشی ایجنسیوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سر تھوپ کر انھیں جیلوں میں ٹھونس دیا. ایک دو نہیں بلکہ 9 مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جیل کی کال وٹھریوں میں ٹھونس کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا.
یہ تعلیم یافتہ 9 مسلم نوجوان مسلسل 11 برسوں تک عدالتوں کے بےجان در و دیوار کا سامنا کرتے رہے. قوانین کی کتابیں اپنے بےحس وجود سے ایسا کوئی فیصلہ صادر کرنے سے محروم رہی تھیں کہ قانون کی گرفت میں آئے یہ مسلم نوجوان بے گناہی کا کرب جھیل رہے ہیں یا واقعی خطا کار ہیں .مالیگاؤں کی گلیاروں سے دہلی کے ایوانوں تک مسلسل نمائندگی کی گئی تب کہیں جا کر عدالت کے احاطہ میں استادہ قانون کی دیوی کی بنیائیوں پر پڑا ہوا کالا پردہ یوں ہٹا کہ وہ 9مسلم نوجوان جو اپنے ناکردہ جرم کے طفیل 11 برسوں تک پابند سلاسل رہتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنے تھے بے گناہی کا تمغۂ اعزاز سجائے واپس لوٹ آئے. آج 17 سال گزرنے کے باوجود 2006 کے سلسلہ وار بم دھماکوں کی سازش رچنے اور سینکڑوں افراد کی شہادت کا پیش خیمہ بننے والے اصل مجرمین قانون کی گرفت سے اوجھل ہیں. با عزت زندگی جن 9 مسلم نوجوانوں کو گزارنے کی نوید عطا کی گئی تھی ان کے 11 برسوں کے طویل ترین صبر آزما لمحات کا کوئی نعمل البدل یا مداوا تلاش کرنے سے قانون و عدلیہ تا ہنوز محروم و عاری ہے. قومی تفتیشی ایجنسیوں کی ساری تفتیش صیغۂ راز میں موجود قانون و عدلیہ کو آنکھیں دکھا رہی ہے. پتھر دل انسانوں کو موم کر دینے والا یہ المناک سانحہ آج 18 ویں منزل تک جا پہنچا ہے لیکن قومی تفتیشی ایجنسیوں کی جانچ و تفتیش کے زاویے کس نہج پر پہنچے ہیں. باعزت بری کئے گئے نوجوانوں کی بجائے اصل مجرمین کون تھے کہاں ہیں یا مذکورہ بم دھماکوں کے مقدمہ کے سلسلے کہاں تک پہنچے ہیں تمام معاملات میں قانون و عدلیہ چپ شاہ کا روزہ رکھے یوں خاموش تماشائی بنے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں. قانون و عدلیہ اور قومی تفتیشی ایجنسیوں کی یہ انتہائے بے حسی ہے کہ شاید انھیں یہ گمان ہو کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہی درست اور صحیح ہے. بھول بھلیوں میں گم انھیں شاید علم ہی نہیں کہ وقت جب حساب لینے پر آتا ہے تو ایک لمحے میں ہی سارے حساب بیباک کر جاتا ہے. وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون رتی ہے کون مہا رتھی. 18 ویں منزل پر مقیم سلسلہ وار بم دھماکوں کا یہ ساخشانہ اپنی بلندیوں سے قانون و عدلیہ سے چینخ چینخ کر مطالبہ کررہا ہے کہ....
اقرباء میرے کریں خون کا دعوی کس پر
یہاں سب کے سب مقدس لباس والے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں