پھلتی پھولتی افغان معیشت!
چار روز کے دوران افغان کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 81 سے 72 تک گر گئی۔ جس پر دو دن پہلے بھی لکھا تھا۔ اب آیئے دشمنوں کی زبانی کچھ اعداد و شمار دیکھتے ہیں۔ افغان حکومت کی ناکامی کا تاثر دینے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کیلئے کئی سامراجی تنظیمیں تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ ایک ’’ہیومینٹیرین گروپ‘‘ ہے، جو نیٹو کے ممبران پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک بھی اس کار شر میں شریک۔ افغان معیشت پر اعداد و شمار جمع کرنے کی ذمہ داری ورلڈ بینک کو سونپی گئی ہے۔ اس نے افغان معیشت پر تحقیق کے لیے جو سامراجی پروگرام مرتب کیا ہے، اس کا نام Afghanistan’s Future ہے۔ اس ضمن میں افغان کاروباری شعبہ، گھریلو معیشت اور پیداواری شعبہ جات پر مستقل سروے کیے جاتے ہیں، ہم نے یہ تمام اعداد و شمار ان کی جاری کردہ رپورٹس سے لیے ہیں، جو اُن کی ویب سائٹ پر سب کے لیے موجود ہیں۔ ورلڈ بینک اپنی Third Party Monitoring Agency(TPMA) کے ذریعے مستقل معاشی اعداد و شمار اکٹھا کرتا رہتا ہے اور ان کو ایک ماہنامہ میں شائع کرتا ہے، جس کو Afghanistan Economic Monitor کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ششماہی تجزیہ Afghan Development Update بھی جاری کیا جاتا ہے۔ حالیہ افغان اکنامک مانیٹر میں جو اعداد و شمار ورلڈ بینک پیش کر رہا ہے، اس سے خود سامراجی پروپیگنڈے کی قلعی کھل رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کے مطابق افغانستان میں کوئی معاشی بحران نہیں۔ 2023ء میں افغانستان میں افراطِ زر (CPI inflation) کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مئی 2023ء تک یہ شرح منفی تین فیصد تھی اور اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں 6 فیصد کم ہوئیں۔ مارچ 2023ء سے لے کر جون 2023ء تک پیٹرول کی قیمتوں میں 9 فیصد کمی ہوئی۔ اس دوران خوردنی تیل کی قیمتیں تقریباً 21 فیصد گریں۔ اس دوران خوراک کی قومی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا اور درآمدی خوردنی اشیا پر محصول کم کر دیئے گئے۔ بازاروں میں رسد اور طلب کا توازن برابر رہا۔ مارچ سے جون 2023ء تک تقریباً 99 فیصد غذائی اور غیر غذائی ضروریات کو پورا کیا گیا۔ کیا یہ ایک فاقہ کش معیشت میں ممکن ہے؟ دسمبر 2023ء سے جون 2023ء تک قومی کرنسی افغانی کی بیرونی شرح تبدل (rate of exchange) بیش تر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں بڑھتی رہی۔ ڈالر کے مقابلے میں افغانی 4 فیصد مہنگا ہوگیا۔ پاکستانی روپے کے مقابلے میں افغانی کے شرح تبدل میں تقریباً 20 فیصد اضافہ اور ایرانی تومان کے مقابلے میں 41 فیصد کا اضافہ ہوا۔ افغان حکومت زرمبادلہ کی ترسیل پر سخت پابندیاں لگائے ہوئے ہے اور کرنسی کے اجرا پر بھی حکومت کا کنٹرول نہایت مستحکم ہے۔ ملک میں کوئی غیر سرکاری زرمبادلہ کی مارکیٹ موجود نہیں۔ 2023ء کے پہلے ششماہی میں بیرونی ممالک سے تقریباً ایک اعشاریہ ایک بلین ڈالر remittances کی شکل میں افغان معیشت میں داخل ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان معیشت کا انحصار اقوام متحدہ کے ذریعے حاصل شدہ زری ترسیل پر مستقل کم ہو رہا ہے۔ بینکوں سے رقومات نکلوانے پر پابندیاں تقریباً ختم کر دی گئی ہیں۔ جو کھاتے اگست 2021ء کے بعد کھولے گئے ان سے رقومات نکلوانے پر کوئی پابندی نہیں۔ امریکی ایما والی حکومتوں کے دور میں جو اکاؤنٹ کھولے گئے ان سے رقومات نکلوانے کی حد اب پچاس ہزار افغانی فی ہفتہ کر دی گئی ہے۔ معاشی استحکام اور حکومتی اعتبار میں اضافہ کے سبب بینکوں سے پیسہ نکلوانے کی شرح قدرے کم ہے۔ معاشی نظام میں غیر سیالیت نہیں پائی جاتی اور کاروباری تمویلی نظام کی کارکردگی سے اطمینان بخش ہے۔ 2023ء کے پہلے ششماہی میں تمام سرکاری ملازمین کو ان کی تنخواہیں وقت پر ادا کی جاتی رہیں۔ معیشت میں ملازمتوں کے مواقع وافر ہیں اور بیروزگاری کی شرح نہایت کم ہے۔ پیداواری سکت میں مستقل اضافہ کے سبب زرعی اور شہری شعبوں میں پیشہ ورانہ اور غیر پیشہ ورانہ محنت کشوں کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اجرتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ حکومتی محصولات میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2023ء کے پہلے چار مہینوں میں محصولات کا حجم ساڑھے چھ بلین افغانی تھا، جو 2022ء کے پہلے چار مہینوں کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ تھا۔ کسٹمز ڈیوٹی اور بزنس رسیدی ٹیکس میں اس دوران 23 فیصد اضافہ ہوا۔ اندرونی محصولیاتی ذرائع (وہ جو بیرونی تجارت پر منحصر نہیں) میں 7 فیصد اضافہ ہوا۔ 2023ء کے پہلے چار ماہ میں افغان درآمدات میں 9 فیصد اضافہ ہوا۔ ورلڈ بینک کے ان شائع شدہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں مکمل معاشی استحکام ہے اور ایران اور پاکستان کے مقابلے میں وہاں معیشت پر حکومت کی گرفت مضبوط ہے۔ معاشی ابتری کی جو تصویر کشی میڈیا کر رہا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ حربی مزاحمت (2002ء تا 2021ء) کے دوران سرفروشوں نے جو علاقائی انتظامیہ قائم کی تھی وہی انتظامیہ آج افغانستان کی قومی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہے اور اس کو افغان عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ (یہ اسی ادارے کی رپورٹ ہے، جس کا مقصد ہی جھوٹا پروپیگنڈا کرنا ہے۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حقیقی صورت حال اس سے بھی کہیں زیادہ اطمینان بخش ہے۔) (سلمان علی۔ ترجمان، ورکنگ گروپ آن افغان اکانومی)
پہلی بار ، افغانی کرنسی ہندوستانی روپے سے بڑھ گئی ہے
1000 افغانی
1080 ہندوستانی روپے
آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ملک افغانستان ایشیاء کا سستا ترین ملک قرار
مہنگائی مکمل کنٹرول میں ہے، کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے۔
#BBC
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں