فخر کے علاوہ کیا ملا؟
ترجمانی: ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ اگر ہمارا چندریان چاند پر بحفاظت پہنچ جائے تو ہمیں اس سے کیا ملے گا۔ امریکہ دہائیوں پہلے چاند پر اپنے خلابازوں کو بھیج چکا ہے۔ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ ہمارا بس ایک راکٹ اترا ہے، وہ بھی پہلی بار کوشش کرکے نہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ کام چودہ دن تک جاری رکھے گا۔ پتہ نہیں یہ کام کرے گا بھی یا نہیں۔ چاند کی سطح کی تصاویر بھیجی جائیں گی۔ دنیا کے پاس پہلے سے ہی چاند کی مٹی کا نمونہ موجود ہے اور چاند کی حالت کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ پھر اس میں نیا کیا ہے؟
آئیے مان لیتے ہیں کہ ہم نے چاند کے قطب جنوبی پر جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ اس حصے میں کوئی پہلی بار پہنچا ہے؛ یہ بھی مان لیا۔ لیکن بنیادی سوال وہی ہے کہ اس سے ہمیں کیا ملے گا؟ ایسے سوالات کرنے والوں کو آج کل ملک دشمن کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ پوچھنا ملک دشمنی ہے کہ چندریان کی لینڈنگ کا کیا فائدہ؟ کیوں اس کی کامیاب لینڈنگ پر ملک بھر میں جشن منایا جا رہا ہے؟ کم از کم اسرو کے سائنسدانوں کو تو یہ بتانا چاہیے کہ چاند پر جانے سے کچھ چیزیں سستی ہو جائیں گی۔ ورنہ اس سائنسی کارنامے کی کوئی قدر نہیں، جو انسانی زندگی کو آسان اور سہل نہ بناتا ہو۔
کیا کسی قوم کی ترجیحات کا تعین نہیں ہونا چاہیے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر پوری دنیا ایک قوم ہوتی تو کیا ہم چاند پر جاتے؟ سائنسی کامیابیوں کا بھی یہی حال ہے۔ جو اسے حاصل کرتا ہے وہ آخر کار پوری انسانیت کا ورثہ بن جاتا ہے۔ امریکہ نے چاند پر جا کر کیا حاصل نہیں کیا جو پھر کسی کو دوبارہ جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے؟ قوم پرستی کا جنون ایک طرف ہے لیکن یہ سمجھداری ہے کہ ہر ملک اپنے وسائل کو صحیح جگہ پر خرچ کرے۔ ہسپتالوں میں ادویات نہیں، میڈیکل کالج نہیں، اسکول نہیں، اساتذہ کی تنخواہیں نہیں ہیں۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ چندریان کو چاند پر اتارنے والے سائنسدانوں کو گزشتہ 19 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔
اس چندریان کی لینڈنگ پر ہم نے 125 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ چھ سو پندرہ کروڑ مالیت کا چندریان بنایا گیا۔ تقریباً اتنی ہی رقم اس کے لوازمات پر خرچ کی گئی ہے۔ اتنا خرچ کرنے اور اتنی خوشیاں منانے کے بعد بھی کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اس کا فائدہ کیا ہے اور کب فائدہ ہونا شروع ہوگا۔
پہلی بار چاند پر جانا ایک کارنامہ تھا۔ مگر بعد میں چاند پر جانا محض ایک تقلید ہے۔ دریافت کرنے اور نقل کرنے میں فرق کیا جانا چاہیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں