src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> نفرت کی درس گاہیں - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

منگل، 29 اگست، 2023

نفرت کی درس گاہیں

 



نفرت کی درس گاہیں


شبیع الزماں( پونے )


اتر پردیش میں ایک ٹیچر کا بچوں کے ذریعے مسلم بچہ کو پٹوانے کے دردناک واقعہ کے کئی پہلو ہیں۔


اول ۔ ٹیچر جو کہ ایک خاتون ہے۔ عام طور سے خواتین کو مردوں کے بالمقابل زیادہ حساس اور رحم دل سمجھا جاتا ہے اور ان سے دوسرے بچوں کے لیے بھی ممتا کے جذبات کی توقع کی جاتی ہے۔ اول تو ایک خاتون اس پرمستزاد استاد ، استاد کو ہر سماج میں عزت و شرف کا مقام حاصل ہے ہندو مذہب تو اسے بھگوان کے برابر کا درجہ دیتا ہے۔ تعلیم کے پرائیویٹائزیشن کے باوجود آج بھی ٹیچنگ ایک نوبل پروفیشن مانا گیا ہے ۔

اس لیے ایک خاتون ٹیچر کا معصوم بچہ کو بے رحمی سے پٹوانا معاملہ کی سنگینی کو بڑھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ ذہن کس قدر خراب کردیے گئے ہیں۔


دوم ۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ اتر پردیش کے کم پڑھے لکھے علاقہ کا معاملہ ہے ۔ کچھ سال پہلے دہلی کی نازیہ ارم نے ہندوستان کے بڑے انگلش میڈیم اسکولوں کا سروے پیش کیا تھا جہاں اعلیٰ تعلیم ہندوؤں کے بچوں کے ساتھ elite کلاس کے مسلم بچے پڑھتے ہیں۔ وہ سروے کتابی شکل میں mothering a muslim کے نام سے شائع ہوا تھا ۔ سروے بتاتا ہے کہ مسلم بچوں کو ان ہائی فائی اسکولوں میں بھی کس طرح ذہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے اور کس طرح اسکولوں کی خاموش تائید بھی اس میں شامل رہتی ہے۔ ہندوستان بھر میں غیر مسلم اکثریت والے اسکولوں میں پڑھ رہے مسلم طلباء عام طور سے  نفرت اور تعصب کا شکار ہیں۔ ان اسکولوں میں مسلم بچوں پر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق زہر آلود فقرے کسے جاتے ہیں اور انہیں مستقل ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے مسلم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو جس قدر اپنے دین اور تہذیب سے لگاؤ ہوتا ہے اس کی بہ نسبت غیر مسلم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ تر اپنی تہذیب سے بیزار اور دین سے بیگانے ہوتے ہیں۔


سوم ۔ صرف  سنگھ کی ودیا بھارتی کے ذریعے سرسوتی  ششو مندر کے تحت چلنے والے تقریبا بارہ ہزار اسکولوں میں  35 لاکھ سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں اور یہ اسکول مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے بدنام ہے۔ اب اگر عام اسکولوں میں بھی یہی کلچر ہوجائے گا تو یہ زہر کتنی پیڑیھوں تک ٹرانفسر ہوگا ۔  اسکولوں کے یہ بچے ہندوستان کی آنے والی نسلیں ہیں اگر ابھی سے ان کے ذہن اتنے زہر آلود ہوں گے تو ہندوستان کا مستقبل کیا ہوگا اور اس کے کتنے بھیانک نتائج ہوں گے تصور کیا جاسکتا یے۔


چہارم ۔  سوال اس معصوم ذہن سے متعلق ہے جس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔ بچے حساس ہوتے ہیں بچپن کے واقعات ان کے ذہنوں پر جلدی اثر انداز ہوتے ہیں اور دیر تک اثر رکھتے ہیں۔ وہ تمام مسلم بچے جو اس قسم کے ذہنی ٹارچر سے گزر رہے ہیں ان کی کیفیات کیا ہوتی ہوگی ۔ اس اذیت ناک ویڈیو کو دیکھنے کے بعد اس معصوم اور مظلوم بچے کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے کہ کس قسم کے مینٹل ٹراما سے وہ گزرا ہوگا یا گزر رہا ہوگا ۔ قدیر شولاپوری نے ایسی ہی صورتحال کے لیے کہا تھا ۔ 


پہلے آتے تھے اشک آنکھوں میں 

تو کچھ پی لیتا کچھ بہا دیتا 

اب کے اترا ہے خون آنکھوں میں 

اب اگر ضبط سے کام لوں تو مرجاوگا 


آخری بات یہ کہ تمام شر پسندوں کے حوصلے اس لیے بلند ہوتے جارہے ہیں کہ سیاسی اقتدار ان کے ساتھ ہے ۔ اس نفرت کے خلاف طویل جدو جہد تو جو کچھ ہونی ہے وہ ہوتی رہے گی لیکن فی الفور اسے روکنے کا ذریعہ اور موقع صرف یہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایسی ظالم طاقتیں جیت نہ پائیں اور ایسی حکومتیں اقتدار میں آئیں جو قانون کا پاس و لحاظ رکھتی ہیں۔


2024 کا الیکشن اس اعتبار سے ایک فیصلہ کن الیکشن ہے اور اس کے لیے ایک سال سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے ۔ مسلمانوں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ یہ حکومت تبدیل ہو ۔ اگر اس الیکشن میں ہم کچھ نہیں کر پائے تو آئندہ پانچ سال بھی صرف اسی طرح افسوس کرتے ہی گزرجائیں گے ۔


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages