src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> ‏چاند پر رہائش کا معاملہ ! - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 25 اگست، 2023

‏چاند پر رہائش کا معاملہ !

 






چاند پر رہائش کا معاملہ !




انڈیا کی جانب سے روانہ کیا جانے والا چندریان تھری خلائی جہاز آج کامیابی سے چاند کی سطح پر اتر گیا ہے، روس، امریکہ اور چین کے بعد اب انڈیا سافٹ لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن گیا ہے، اس موقع کی مناسب سے چاند کے حوالے سے کچھ ضروری معلومات شیئر کر لیتے ہیں،  مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ نے اپنی تفسیر ”معالم العرفان فی دروس القرآن“ میں اس پر مفصل کلام کیا ہے ….. لکھتے ہیں جب ﷲ نے حضرت آدمؑ اور اماں حواؓ کو جنت سے زمین پر اتارا تو حکم دیا کہ (ولکم فی الارض مستقر، اور زمین میں تمہارے لیے ٹھکانا ہے) اب تمہاری رہائش زمین پر ہوگی  (ومتاع الی حین، اور ایک مدت تک فائدہ اٹھانا ہے) یعنی تمہاری اصل رہائش گاہ زمین ہی ہوگی البتہ اگر زمین کو چھوڑ کر کہیں فضاؤں یا سمندروں میں جاؤ گے تو وہ عارضی قیام گاہ ہوگا، مستقل قیام زمین پر ہی کرو گے، زمین ہی اصل ٹھکانا ہے۔

آج کے دور میں جو پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم زمین پر مستقل طور پر نہیں رہیں گے بلکہ چاند، مریخ یا دوسرے سیاروں میں چلے جائیں گے تو یہ محض شیطانی پراپیگنڈا ہے، چاند ہماری زمین سے قریب ترین سیارہ ہے اور اس کا فاصلہ اڑھائی لاکھ میل ہے، مریخ تو یہاں سے پچاس کروڑ میل دور ہے اور دوسرے سیارے اس سے بھی دور ہیں، فرض کرلیا کہ چاند پر رہائش کا بندوبست ہوجاتا ہے، وہاں ہوٹل قائم ہوجاتے ہیں تو سائنس دانوں کا اپنا اندازہ یہ ہے کہ ایک پونڈ غذا کو چاند پر پہنچانے کیلئے تیس ہزار پونڈ خرچ ہوں گے، وہاں پہنچنے کا خصوصی لباس چار لاکھ روپے میں تیار ہوگا، یہ لباس تو راستے میں ہی جل جائے گا، چاند پر تو ایٹمی لباس پہننا ہوگا، وہاں کی گرمی کی مقدار تقریباً چالیس ہزار سنٹی گریڈ ہے، جہاں پر پانی تو کیا تابنا بھی پگھلنے لگتا ہے، چاند کے ایک طرف گرمی ہے اور دوسری طرف اتنی سردی ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا لہٰذا ایسی جگہ پر رہنے کے لیے اتنا قیمتی لباس تیار کرانا ہوگا، ظاہر ہے خوراک اور لباس پر اتنی رقم خرچ کرکے کون رہائش پذیر ہوگا ؟ اگر کوئی وہاں تک پہنچے گا بھی تو اس کا قیام بالکل عارضی ہوگا، آخر کار اسے زمین پر ہی آنا پڑے گا، اسی لیے فرمایا کہ تمہارا اصل ٹھکانا زمین پر ہی ہوگا، دوسری جگہ فرمایا (منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری۔ اے انسان ! ہم نے تمہیں اسی زمین سے پیدا کیا، اسی میں لوٹائیں گے اور پھر قیامت کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالیں گے) اسی لیے یہاں پر فرمایا کہ اے آدمؑ اور حواؓ تم یہاں سے زمین پر اتر جاؤ، ایک خاص مدت تک وہی تمہارا ٹھکانا ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages