بھیونڈی کے صلاح الدین اسکول پر 12 سالہ مریم کی بے رحمی سے پٹائی کا الزام
غیر انسانی سلوک پر والدیں کا مدرس کے خلاف کاروائی کا مطالبہ
اسپیشل اسٹوری
بھیونڈی کے مشہور و معروف تعلیمی ادارے صلاح الدین ایوبی کی بات کی جائے یہ ادارہ آئے دن اخبار کی سرخیوں میں رہتا ہے . کبھی اس کے طلباء کا شہر کے شاپنگ سینٹر میں سیگریٹ کے کش لیتا ہوا فوٹو وائرل ہوتا ہے تو کبھی اسکول گراؤنڈ میں طلباء آپسی رنجش کے چلتے پرکار سے حملہ کرتے ہیں. قارئین! صلاح الدین ایوبی اسکول کے ان کارناموں سے ہر کوئی واقف ہیں. کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ طلباء میں اس طرح کی غلط اور غیر اخلاقی سرگرمیاں کس طرح پرورشآ پارہی ہیں.
تو قارئین ! آئیے ہم آپ کو صلاح الدین ایوبی اسکول کی ٹیچرز کے اس تاریک پہلو سے واقف کراتے ہیں. جسے شاید کوئی نہیں جانتا یا درس و تدریس کے معتبر پیشے کی توہین نہ ہو اس لئے چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں. مگر کل 7 اگست بروز پیر کو اسکول کی ہذا کی ایک ٹیچر نے جماعت ہفتم کی بچی کو لکڑی سے اس قدر بے رحمی سے مارا کہ مارتے مارتے بچی کے بدن پر لکڑی ٹوٹ گئی مگر اس ٹیچر کا شیطانی غصہ قابو میں نہیں آیا. اس ضمن میں بچی کی والدہ غزالہ وسیم شیخ نے نمائندے کو بتایا کہ میری بچی مریم وسیم شیخ جونیئر سے صلاح الدین ایوبی اسکول میں زیر تعلیم ہے. ایک بڑا نام اور بچی کے تابناک مستقبل کی خاطر ہم نے اس کا داخلہ صلاح الدین ایوبی اسکول میں کرایا شروعات سے ہی کچھ نہ کچھ شکایتیں رہتی تھیں مگر ہم اسے نظر انداز کرتے رہے. ایک کلاس میں بھیڑ بکریوں کی طرح 67 بچوں کو بٹھایا جاتا ہے. ایک بینچ پر جہاں 2 بچوں کی گنجائش ہے وہاں ممبئی کی لوکل کی طرح چوتھی سیٹ کی گنجائش نکال کر اسی طرح 3 بچوں کو بٹھایا جاتا ہے. فیس وصولنے کے معاملے میں اسکول کسی ہلاکو خاں سے کم نہیں ہے. فیس لیٹ ہونے کی صورت میں والدین سرپرستوں کی اچھی خاصی عزت افزائی کی جاتی ہے. یہاں تک جن بچوں سے فیس وصول کر یہ عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں ہی کہا جاتا ہے کہ جب تمہاری اوقات نہیں تھی تو کیوں پرائیویٹ اسکول میں پڑھا رہے ہو؟ اور بے چارے والدین اسے بھی اپنی غلطی سمجھ کر اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ کسی شربت کی طرح پی لیتے ہیں. اگر بچہ کسی بھی وجہ سے غیر حاضر ہے تو نہایت سختی سے دوسرے بچوں کو منع کرتی ہیں اپنی کاپی اسے نہ دیں. اس طرح ٹیچر کو ایک اپنی ساری بھڑاس نکالنے کا ایک بہترین موقع مل جاتا ہے. بات ہورہی تھی ایک بینچ پر 3 بچوں کو بٹھانے کی جس میں حو تیسرا بچہ ہوتا ہے بے چارہ سب سے زیادہ مسکین ہوتا ہے. بالکل اسی طرح جس طرح کارپوریشن کو سارے ٹیکس ادا کرنے کے بعد عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں. کیونکہ اس بچے کو ڈیسک میں بیگ رکھنے کی جگہ نہ ہونے کی صورت میں بیگ کو زمین پر رکھنا پڑتا ہے. دوسرے بچے اس سے امتیازی سلوک کرتے ہیں. کبھی زوردار دھکا دے اسے زمین پر گرا دیا جاتا ہے اور لب کھولنے پر ٹیچر سے سزا الگ ملتی ہے. اگر والدین اس بارے میں ٹیچر سے شکایت کریں تو نہایت شاندار جواب ملتا ہے. باجی آپ تھوڑا ایڈجسٹ کرلو. مریم کی والدہ کا کہنا ہے جونیئر سے لے کر آج ساتویں جماعت تک ٹیچر کے کہنے پر ایڈجسٹ ہی کئے مگر کل میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا کیونکہ بیمار ہونے کی وجہ سے بچی 10 دن تک اسکول نہیں گئی تھی. ٹیچر جہاں بچی کو سزا دے رہی تھی وہی اس سے امتیازی سلوک بھی برتا جارہا تھا. بات بات ٹیچر اسے ڈبہ کہتی ہے. ڈرائنگ کمپٹیشن میں حصہ لینے پر مس نے کہا کہ ڈبہ ہے کچھ نہیں کرسکتی. جس کی وجہ سے بچی اسکول سے دلبرداشتہ ہوگئی ہے. بچی اب کسی صورت اسکول جانے کو تیار نہیں ہے. اس کے دل میں دہشت بھر گئی تھی. بچی بس ایک ہی بات کہتی ہے کہ دوسری اسکول میں ایڈمیشن کرادو چاہے دو سال پیچھے ہی صحیح مگر میں صلاح الدین ایوبی اسکول میں نہیں پڑھوں گی. ان سب باتوں سے پریشان ہوکر میں نے کل اس کی کلاس ٹیچر نیلوفر مس سے اسکول میں رابطہ کیا. ٹیچر کا وہی گھسا پٹا جواب کہ باجی ایڈجسٹ کرو تب میں نے کہہ دیا کہ جونیئر سے میں ہی ایڈجسٹ کررہی ہوں . ہوم ورک اور دوسری دیگر باتوں پر ٹیچر سے طویل گفتگو ہوئی. میں نے نیشنل اسکول کے تمام قواعد بتائے اور ٹیچرز کی خوش اخلاقی اور شیریں گفتگو کی تعریف کی اور گھر واپس آگئی. مگر جب شام کو میری بچی گھر آئی تو اسے ٹیچر بے رحمی سے مارا تھا. ہاتھوں پر سوجن اور چوٹ کے نشان تھے بچی ڈر اور خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی اور بس روئے جارہی تھی. تھوڑی دہر بعد جب اس کے حواس بحال ہوئے تھے تب ہچکیاں لیتے ہوئے بچی نے بتایا کہ نیلوفر مس نے مارا ہے کیونکہ میں نے ان کی شکایت کی تھی. اسی درمیان ایک اور طلبہ زنیرہ کی والدہ کا کال آیا انہوں نے بتایا کہ جس وقت ٹیچر بچی کو بے رحمی سے پیٹ رہی تھی بچے سہم گئے تھے اور زنیرہ جوکہ بہت کمزور ہے ڈر کر کلاس سے باہر جانے لگی تو ٹیچر نے دوسری بچیوں سے اسے کلاس میں بٹھایا اور اسے دھمکی دی کہ اگر میری شکایت کی تو میں ہڈی پسلی توڑ دوں گی. بچی نے بتایا کہ نیلوفر ٹیچر نے اس قدر مریم کو مارا کہ لکڑی ٹوٹ گئی. مریم کی والدہ نے مزید کہا کہ مریم کو مارتے ہوئے نیلوفر مس کہہ رہی تھی کہ میری شکایت کریگی اور کرو میری شکایت. اس پورے واقعے کی روداد میں نے مالیگاؤں میں اپنی بہن وفا ناہید کو بتائی حو کہ ایک رپورٹر ہے. اس نے ریاض سر سے بات کی سر نے اس قدر سیریس میٹر کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بچی کی کلاس تبدیل کردی جائے گی. آج 8 اگست کو میں اور زنیرہ کی امی نے ریاض سر سے ملاقات کی مگر نتیجہ وہی صفر. زنیرہ نے بتایا کہ ٹیچر کلاس میں آکر پوچھ رہی تھی کہ میری شکایت کس نے کی. زنیرہ نے بتایا کہ میری اور مریم کی امی آئی تھی. تب ٹیچر نے کہا کہ میں ہڈی پسلی توڑنے کا نہیں بولتی یوں. اس ظالم ٹیچر کو نوکری سے برطرف کرکے گھر کا راستہ دکھایا جائے تاکہ معصوم بچے اس کے ظلم و خبر سے محفوظ رہے.
قارئین! یہ تو اسکول کے اساتذہ ہے ان کی منیجمنٹ تو ان سے زیادہ خونخوار ہے. بطور نامہ نگار جون 2023 میں ایک بچے کے گیارہویں میں ایڈمیشن کے سلسلے میں نمائندے نے جلیس اعظمی سے بات کی تھی جلیس اعظمی کا جواب تو تاریخ کے پنوں میں محظوظ کرنے جیسا ہے. موصوف نے نہایت حقارت سے کہا تھا کہ جب فارم خریدنے کے 100 روپئے نہیں تھے تو پڑھا کیوں رہے ؟ تب نمائندے نے کہا کہ سر ہم آپ سے مدد نہیں مانگ رہے بس آپ ایک ذمے دار شخص ہے اس لئے آپ سے درخواست کررہے تھے کہ اگر آپ اسکول میں بات کریں گے تو اس بچے کو فارم مل جائے گا کیونکہ آن لائن لسٹ میں اس بچے کا نام تھا.
قارئین اب آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ادارے میں اس قدر ظالم و جابر استاد ہے تو اس کے طلبا کس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونگے؟ اخبار کے ذریعہ بچی کی والدہ نے انصاف کی دہائی دی ہے.
نمائندے نے 7 اگست کو پرائمری سیکشن ہیڈ ماسٹر ریاض سر سے بات کی تھی مگر اسکول نے ٹیچر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بس بچی کی کلاس تبدیل کی ہے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں