src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> مہاراشٹر میں سیاسی پستی کی انتہا! - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 5 جولائی، 2023

مہاراشٹر میں سیاسی پستی کی انتہا!

 







مہاراشٹر میں سیاسی پستی کی انتہا! 



شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )



اجیت پوار کا نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) کو توڑنا ثبوت ہے کہ مہاراشٹر کی سیاست ایک دلدل میں تبدیل ہوگئی ہے ! یہ ایک ایسی دلدل ہے جس میں سارے اخلاقی اقدار ، قانون ، عدلیہ ، نظام اور سارے ہی اصول و ضوابط دھنستے چلے جا رہے ہیں ، اور ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا الیکشن کے قریب آتے آتے یہ دلدل ،نہ جانے کیا کیا ،اور نہ جانے کتنوں کو نگل لے گی ۔ اجیت پوار این سی پی کے سربراہ شرد پوار کے سگے بھتیجے ہیں ، انہیں سیاست کی الف بَ ان کے چچا ہی نے سکھائی ہے ، لیکن انہیں اپنے چچا سے غداری کرتے ہوئے ، اور ان کی بنائی ہوئی پارٹی کو توڑتے ہوئے ، نہ شرم آئی اور نہ ہی انہیں یہ لگا کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں ۔ اب سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا این سی پی بھی شیوسینا بن کررہ جائے گی ، کیا شرد پوار دوسرے ادھو ٹھاکرے بن جائیں گے اور این سی پی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی؟ ان سوالوں کے جواب تو آنے والے دنوں میں مل ہی جائیں گے ، لیکن ایک بڑا سوال ، جس کا جواب ضروری ہے ، یہ ہے کہ کیا یہ سیاست داں اپنے کردار کو بدل سکیں گے ؟ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ جان لیں ، کہ یہ جو چچا بھتیجے ، اور شردپوار و بی جے پی کی جنگ شروع ہوئی ہے ، اس بارے میں سیاسی پنڈتوں کا یہ دعویٰ ہے ، کہ اس میں نہ اجیت دادا پوار کی جیت ہوگی اور نہ ہی بی جے پی کی ، جیت شردپوار ہی کی ہوگی ۔ یہ دو چانکیاؤں کی لڑائی ہے ، ایک چانکیہ امیت شاہ ہیں ، اور دوسرے شردپوار ۔ ان دونوں میں سے حقیقی چانکیہ اگر کسی کو مانا جاتا ہے ، تو وہ شرد پوار ہیں ۔ شرد پوار نے امیت شاہ کو کئی محاذ پر خاک چٹائی ہے ، اس کی ایک بڑی مثال ۲۰۱۹ ء کی ہے ، جب اجیت پوار نے غداری کر کے بی جے پی سے ہاتھ ملایا تھا ، اور علی الصبح راج بھون پہنچ کر نائب وزیراعلیٰ کا حلف لیا تھا ، اور دیویندر فڈنویس وزیراعلیٰ بنے تھے ۔ یہ عہدے صرف اسّی گھنٹے تک برقرار رہے ، اجیت دادا پوار کو دوبارہ این سی پی کا ہاتھ تھامنا ، اور فڈنویس کو وزیراعلیٰ کی گدّی چھوڑنی پڑی ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امیت شاہ نے شیوسینا کو توڑ کر ، اور مہا وکاس گٹھ بندھن کی حکومت کو گرا کر ، اور اب این سی پی کو توڑ کر ، اُس ہار کا بدلہ لے لیا ہے ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ شیوسینا کو توڑنا بی جے پی کے گلے کی ہڈّی بنا ہوا ہے ، اور اجیت دادا پوار کو توڑنا اس کے لیے بہت بڑا سر درد ثابت ہو سکتا ہے ۔ شردپوار کا پہلا ردعمل جو سامنے آیا تھا وہ دلچسپ تھا ، انہوں نے مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے این سی پی پر لگے کلنک کو دھو دیا ہے ۔ یہ کلنک ’ کرپشن ‘ اور ’ بدعنوانی ‘ کا ہے ۔ اجیت دادا پوار پر کوآپریٹیو بینکوں اور آب پاشی کے گھوٹالوں کا الزام ہے ، چھگن بھجبل بدعنوانی کے الزام میں دوسال سلاخوں کے پیچھے بِتا آئے ہیں اور ابھی وہ الزامات سے بری نہیں ہوئے ہیں ، پرفل پٹیل کی کئی جائیدادیں قرق کر لی گئی ہیں ، سنیل تٹکرے اور ان کی بیٹی ادیتی تٹکرے پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں ۔ اسی طرح این سی پی کے مزید جو ممبرانِ اسمبلی بی جے پی کی حمایت میں پیش پیش ہیں ، اُن میں سے اکثر ای ڈی ، انکم ٹیکس اور سی بی آئی کے راڈار پر ہیں ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے ، کہ اجیت دادا پوار جن ممبران اسمبلی کو لے کر علیحدہ ہوئے ہیں ، اُن میں سے اکثر شردپوار سے غداری پر مجبور ہوئے ہیں ، انہیں اپنا مال اور اپنی جان بچانی ہے ، اگر وہ بی جے پی کی جانب ہاتھ نہ بڑھاتے تو ان کی جائیدادیں قرق ہو جاتیں ، اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے ۔ پی ایم مودی نے ۲۷ ، جون کو بھوپال کی اپنی ریلی میں یہ دھمکی دے دی تھی کہ این سی پی مکمل طور پر بدعنوان سیاسی پارٹی ہے ، اس کے لیڈروں نے ۷۰ ہزار کروڑ روپیے کا گھوٹالہ یا گھپلہ کر رکھا ہے ، اور یہ کہ وہ یہ گیارنٹی دیتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ، کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا ۔ یہ دھمکی نیند اڑانے والی تھی ، لہذا یہ سب بی جے پی یا یہ کہہ لیں کہ مودی اور شاہ کے سامنے سرنگوں ہوگئے ! بہت سیدھی سی بات ہے ، اگر این سی پی کےیہ لیڈر سرتاپا  بدعنوانی کے الزام میں غرق نہ ہوتے ، تو نہ مودی دھمکی دے پاتے اور نہ ہی اجیت پوار این سی پی کو توڑتے ۔ یہ بدعنوانی کی جو گند ہے ، اس نے سارے سیاسی نظام کو ایک دلدل میں تبدیل کر دیا ہے ۔ دولت اور اقتدار کی ہوس نے ساری سیاست کو غلیظ کر دیا ہے ۔ اجیت پوار نے بی جے پی کی حمایت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ مہاراشٹر کی ترقی کے لیے کام کریں گے ! کیا کوئی ایسا شخص جس پر بدعنوانی کے ، کسانوں کی آب پاشی کے پیسے ہڑپ کرنے کے اور کوآپریٹیو بینکوں میں گھپلوں کے الزامات لگے ہوں ، وہ اپنی ریاست کی ترقی کی بات کرنے کا اہل مانا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب ’ نہیں ‘ ہے ، لیکن ان دنوں سیاست کو جن لوگوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے ، وہ بے شرمی کی اس اتھا ہ کھائی میں جا گرے ہیں کہ ہر طرح کی بدعنوانی کرنے کے باوجود ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کی باتیں کرتے تھکتے نہیں ہیں ۔ بی جے پی نے ۲۰۱۴ ء میں ایک ایسی سیاسی پارٹی کے طور پر حکومت پر قبضہ کیا تھا جس کی ساکھ بدعنوانی کے معاملات میں ’ صاف ستھری ‘ پارٹی کے طور پر بن گئی یا بنا دی گئی تھی ۔ کچھ دنوں تک پی ایم مودی نےبی جے پی کی اس  ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ، پھر انھوں نےایک کے بعد ایک کرپٹ اور بدعنوان لیڈر کو بی جے پی میں شامل کرنا شروع کر دیا ، اور یہ کہا جانے لگا کہ بی جے پی کے پاس ایسی واشنگ مشین ہے جو ہر کرپٹ لیڈر کو پاک و صاف کر دیتی ہے ۔ یہ ایک طنز تھا ، بلکہ ہے ۔ اور آج بی جے پی اور پی ایم مودی کی وہ ساکھ ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ بی جے پی ایک ایسی پارٹی میں ڈھلتی جا رہی ہے جس میں بدعنوانوں کے لیے جگہ ہی جگہ ہے ، اسی لیے اس کی ساکھ عوام میں خراب ہوئی ہے ۔ پی ایم مودی نے بدعنوانوں پر کارروائی کی گیارنٹی دی تھی مگر انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ، اور دیویندر فڈنویس جو اجیت پوار کو چکّی پسوا رہے تھے ، انہیں نائب وزیراعلیٰ بنوانے میں پیش پیش رہے ۔ یہ سیاسی پستی کی انتہا ہے !

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages