نیکیوں کا موسم عشرہ ذی الحجہ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس طرح بعض مقامات کو بعض مقامات پر اور بعض اوقات کو بعض اوقات پر فضیلت بخشی ہے ایسے ہی بعض ایام کو بعض ایام پر فضیلت عطا فرمائی ہے، اس طرح کہ ان مخصوص ایام میں کوئی نیک عمل کرنا دوسرے عام دنوں میں عمل کے مقابلے میں زیادہ باعث اجر وثواب ہوتا ہے زیادہ قرب الہی کا سبب ہوتاہے۔
انہی مخصوص ایام میں ماہ ذی الحجہ کے پہلے نو دن ہیں جن کو عشرہ ذی الحجہ کہا جاتاہے ، کسر کو ختم کرنے کے لیے عشرۃ کہہ دیا گیا۔
ماہ ذی الحجہ کو بھی دیگر مہینوں پر فوقیت حاصل ہے بایں وجہ کہ اسی ماہ میں حج جیسی اہم عبادت انجام دی جاتی ہے اور پھر قرآن مجید میں جن چار ماہ کو اشہر حرم (حرمت والے مہینے) کہا گیا ہے ان میں ایک ذی الحجہ کا بھی مہینہ ہے۔
*عشرہ ذی الحجہ قرآن مجید میں*
ذی الحجہ کے مہینے کا پہلا عشرہ اللہ رب العزت کے نزدیک بہت ہی قابل قدر ہے ، اللہ تعالٰی نے ان دس راتوں کی قسم کھائی ہے ، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "والفجر ولیال عشر" قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی ، ظاہر ہے کہ قسم اسی چیز کی کھائی جاتی ہے جو مہتم بالشان ہو، اہم ہو ، اسی سے واضح ہوتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے ، لیال عشر کی مراد میں اگرچہ مفسرین کے اقوال مختلف ہیں لیکن اکثر مفسرین نے صحیح اور راجح قول اسی کو قرار دیاہے کہ اس سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے ، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے تفسیر مظہری میں یہی نقل کیا ہے کہ لیال عشر سے مراد صحیح قول کے مطابق عشرہ ذی الحجہ ہے ، یہی قول حضرت ابن عباسؓ ، قتادہ ، مجاہد ، ضحاک ، سدی ، کلبی رحمہم اللہ اور دیگر سلف و خلف کا ہے۔ پھر اس قول کی تائید میں حدیث شریف بھی بیان فرمائی گئی ہے، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مسند احمد میں بروایت حضرت جابر نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "ان العشر عشر الاضحی" یعنی لیال عشر سے مراد عشر ذی الحجہ ہے۔
( تفسیر ابن کثیر ج ٨ ص ٣٩١ )
(تفسیر مظہری ج ١٠ ص ٢٢٨ )
(معارف القرآن ج ٨ ص ٧٣٩)
*عشرہ ذی الحجہ حدیث شریف میں*
احادیث میں کثرت سے ان ایام میں عمل کرنے کی فضیلت مذکور ہے ، چنانچہ بخاری و ترمذی نے بروایت حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں کوئی ایام ایسے نہیں ہیں جن میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں" لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا جہاد کرنا بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جہاد کرنا بھی نہیں ، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال لیکر اللہ کی راہ میں نکلے پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے۔
( الصحیح للبخاری ج ١ ص ١٢٣ )
(الجامع للترمذی ج ١ ص ٢٧٨ )
یعنی اس ایک مجاہد کے علاوہ سال بھر کے کسی دن کا عمل ذی الحجہ کے ان ایام سے نہیں بڑھ سکتا ان دنوں میں کوئی بھی نیک عمل کرنا دوسرے دنوں کی مقابلے میں زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔
*عشرہ ذی الحجہ کے روزے اور نوافل*
اس عشرے میں ایک دن کا روزہ رکھنا سال بھر کے روزوں کے برابر ہے ، اور راتوں کو عبادت کرنا شب قدر میں عبادت کرنے کی طرح ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عبادت کرنے کے لیے اللہ تعالٰی کے نزدیک سب دنوں میں عشرہ ذی الحجہ سب سے افضل ہے اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور اس میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ ( الجامع للترمذی ج ١ ص ٢٧٨ )
*عشرہ ذی الحجہ افضل یا رمضان کا عشرہ اخیرہ؟*
انہیں احادیث کی بناء پر علماء کا اس سلسلے میں اختلاف ہوا کہ آیا رمضان کا عشرہ اخیرہ افضل ہے یا عشرہ ذی الحجہ؟ بعض علماء نے اس حدیث کی وجہ سے عشرہ ذی الحجہ کو افضل بتایا بعض نے شب قدر اور روزوں کی وجہ سے رمضان کے عشرہ اخیرہ کو افضل قرار دیا ، لیکن مختار قول یہ ذکر کیا گیا ہے کہ دن تو ذی الحجہ کے عشرہ اول کے افضل ہیں اس لیے کہ ان میں یوم عرفہ ہے اور راتیں رمضان کے عشرہ اخیرہ کی افضل ہیں اس لیے کہ ان میں شب قدر ہے۔
( مرقاۃ المفاتیح ج ٣ ص ٥١٢ )
*یوم عرفہ کی اہمیت اور اس کا روزہ*
پھر ان دنوں میں بھی یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے روزے کی مزید خاص فضیلت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزے کے بارے میں فرمایا کہ یہ روزہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ (کے صغیرہ گناہوں) کا کفارہ ہے۔
( الصحیح لمسلم ج ١ ص ٣٦٧ )
اس کی عظمت کو حدیث شریف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یوم عرفہ سے بڑھ کر کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو جہنم سے اتنی زیادہ تعداد میں آزاد کرتے ہوں جتنا عرفہ کے دن کرتے ہیں۔
(الصحیح لمسلم ج ١ ص ٤٣٦)
*مقصد*
ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ یہ کس قدر عظمت اور رحمت والے ایام ہیں ، اللہ تعالیٰ ان میں اپنی رحمت کے فیض کو کس قدر عام کرتے ہیں۔
لیکن افسوس یہ کہ ہمارے اندر نیکیوں کی طلب نہیں، ہم نہیں چاہتے اللہ رب العزت کے انعامات کو حاصل کرنا ، اکثر لوگ تو ان فضائل سے ناواقف ہیں اور جو واقف ہیں وہ عمل سے دور ہیں۔
لہذا ذی الحجہ کا چاند نظر آتے ہی ہم کو اپنی آخرت سنوارنے کی غرض سے نیکیاں حاصل کرنے کے لیے خوب اہتمام کرنا چاہیے ، جس طرح تمام چیزوں کا موسم ہوتاہے، سیزن ہوتاہے ایسے ہی یہ نیکیوں کا سیزن ہے ہم جتنا چاہیں نیکیاں بٹور لیں۔
*کس طرح فائدہ اٹھائیں؟*
ان ایام سے اس طرح فائدہ اٹھائیں کہ اگر استطاعت ہو تو ان ایام میں روزوں کا اہتمام کریں ، اگر نہیں تو کم از کم یوم عرفہ کے ایک روزہ کی کوشش کرلیں ، ان راتوں میں نوافل ، ذکر ، تلاوت کا اہتمام کریں کہ اس رات کی عبادت شب قدر کی عبات کے برابر ہے۔
ان ایام میں بطور خاص ہر قسم کے گناہ اور معصیت سے بچنے کا اہتمام کریں ، مرد حضرات ہوں یا مستورات کوشش یہ ہو کہ ان ایام میں ہم سے گناہ سرزد نہ ہو ، مستورات بے پردگی کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائیں۔
اخیر درجے میں کم از کم اتنا کریں کہ ان راتوں میں دوسرے ایام کے مقابلے میں عشاء اور فجر کی نماز باجماعت کا خاص خیال ہو اس لیے کہ عشاء اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے سے پوری رات انعامی عبادت گزاری کا ثواب ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
بندہ حفظ الرحمن عبد القیوم مالیگانوی
استاذ جامعہ ابوالحسن علی ندوی
٢٩ ذوالقعدہ ١٤٤٣ ھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں