غزل
نام: واصف اقبال واصف
تریاہی، مدھوبنی، بہار
موبائل: 9971865467
تری صحبت میں جو گزری وہی کیا زندگانی ہے
غموں نے دم کچل ڈالا جو ہے سہمی جوانی ہے
بہا جب خوں غلامی میں رہا یہ تن بدن جلتا
اگر قسمت پلٹتی ہے تو قسمت آزمانی ہے
اتر کر سچ کے سانچے میں غلط پھر بھی غلط ہوگا
غلط کو پھر غلط کہنے کی عادت خاندانی ہے
عداوت کو بھلانے میں رفاقت کو نبھانے میں
نہ اوّل کوئی ہے مجھ سے نہ میرا کوئی ثانی ہے
عجب وحشت کا عالم ہے ترے دورِحکومت میں
یہاں ہر سر پہ خنجر ہے یہ کیسی حکمرانی ہے
کرائے کا بسیرا ہے نہیں ذاتی مکاں واصف
کہ ہر شے عارضی ٹھہری یہ دنیا بھی تو فانی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں