یہ ہے ہماری آگرہ روڈ کا گھٹیا نظام
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اس کہاوت کے مصداق سالوں کی تکلیف اور احتجاج کے بعد مہاراشٹر بیکری سے آگرہ روڈ کے فیس تھری کا کام سستی کے ساتھ جاری ہے ، نیشنل پیٹرول پمپ تک آگرہ روڈ کا حصہ بن کر تیار تو ہوگیا ہے ، لیکن اب بھی اس کا استعمال راہ گیروں کے بجائے دکانداری اور پارکنگ کے لیے زیادہ کیا جارہا ہے۔ تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں سے نیا راستہ شروع ہورہا ہے ، وہاں دھڑلے سے اینٹ فروخت ہونے کے لیے رکھی گئی ہے،( گویا یہ شہر کی مصروف شاہرہ نہیں،کسی کا گودام ہو)ٹرک بھی پارک کی گئی ہے، آگے کاریں بھی کھڑی ہیں اور ہوٹلوں کی کرسیاں بھی رکھی گئی ہیں۔*
*یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ روڈ بنانے والوں نے اب تک وہاں سے اپنی رکاوٹ ہٹائی نہیں ہے جس کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔*
*سوچئے تو سہی ! روزانہ لاکھوں لوگ تکلیف کے ساتھ اس روڈ سے گزرتے ہیں، لیکن ٹریفک پولس، کارپوریشن ، سیاسی لیڈران ، روڈ کے ٹھیکیدار اور وہ مسلمان جو روڈ پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں، کسی کو کوئی احساس نہیں ہے۔ سب کو اپنا مفاد عزیز ہے، غیر مسلم بھائی آگرہ روڈ سے گزرتے ہوئے سوچتے ہوں گے کہ کیا مسلمان اتنے بے حس اور مفاد پرست ہوتے ہیں جو روزانہ لاکھوں لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ کیا ان کا مذہب انہیں یہی تعلیم دیتا ہے؟*
*بے حسی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے*
*پوری آگرہ روڈ دیکھ لیجئے ، 50 فیصد حصے پر چھوٹی بڑی سواریاں(خصوصا ٹرک، ٹرالی، کار اور رکشہ وغیرہ ) اور دکانداروں کے سامان رکھے ہوئے ہیں ۔ اسی لیے کسی نے کہا تھا کہ یہ دنیا کا سب سے مہنگا پارکنگ لاٹ اور مارکیٹ ایریا ہے۔*
*عوام بھی تکلیف جھیلنے کی عادی ہوگئی ہے اور سیاسی لیڈران کو ایسے مسائل سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ اخبارات اور نیوز چینل والوں کو بھی یہاں سے گزرتے ہوئے یہ چیزیں نظر نہیں آتیں*
*ایسا لگتا ہے کہ پورے شہر کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جیسے جیناہے جیو یا مرو۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا
*لیکن یاد رکھیں ! کوئی کہے یا نہ کہے، راستے پر قبضہ (اتی کرمن)کرنے والوں اور راہگیروں کو تکلیف دینے والوں کو خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا اور اس وقت بنائے نہیں بنے گی!*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں