ہندو لڑکے سے شادی کا بھیانک انجام!!
ہمارے پاس ایک لڑکی بنگالی پپلا تعلقہ گیورای ضلع بیڑ مہاراشٹرا کی زیر علاج ہیے
اسکی داستان کچھ یوں ہیے
اپنے گاؤں کے ایک ھندو لڑکے سے اسکا معاشقہ ہوا اور پھر شادی ہونا طے ہوا اس لڑکی نے اپنا مذہب چھوڑا ھندو مذہب اپنایا آدھار کارڈ مت دان کارڈ راشن کارڈ اسکول ٹیسی اور دیگر سارے سرٹیفکٹس سب میں اپنا نام بدلی کروالیا پرانا نام مینا بنت شیخ حسین سے نیا نام امر پالی کاکاڑے کر لیا اور مندر میں جاکر شادی کرلی اور ایسی ھندو بن گئی کہ خاندانی ھندو بھی اسکے مقابلے میں فیل
چندہی مہینے گزرے تھے کہ دونوں میں ناراضگیاں پیدا ہو گئیں وجہ یہ تھی کہ گھر خرچ صبح ہوتے ہی شکر پتی دودھ
دوپہر کھانے کے لئیے تیل ترکاری پھر شام کا کھانا نمک مرچ کوتمیر ٹماٹر اور پھر نہانے کو صابون شامپو سر کو تیل چوٹی کو ربن کاٹا بکل یہ سب اخراجات سامنے آگئے
لڑکا اسنے تو کواری لڑکی کا مزا لوٹنے کے لئیے شادی کا ناٹک رچایا تھا وہ گھر خرچ کیوں کرے ؟
لڑکی کو ہونا ضروریات زندگی اور لڑکے کو ہونا صرف جماع ہمبستری
اخراجات کی وجہ سے دونوں میں ناراضگیاں پیدا ہویں اور بڑھتی گئیں یہاں تک کہ دونوں میں لڑای جھگڑے شروع ہوگئے ایک روز لڑکی نے غصے میں آکر اپنے اوپر تیل چھڑک کر آگ لگا لی اسی فیصد جل گئی فورآ بمبئی جے جے اسپتال لے جایا گیا گیورای کے کانگریسی لیڈر پنڈت جنکو آبا بھی کہتے ہیں انکے لیٹر یا انکے خرچ پر علاج چالو ہوا تین مہینے وہ لڑکی مسلسل بیے ہوش رہی ہوش آ نے پر علاج شروع ہوا جسم میں کسی جگہ کا چمڑا کاٹ کر کسی جگہ لگانا وغیرہ وغیرہ ہاتھوں کی انگلیاں ٹیڑھی مکوڑی ہو گئیں پیر کی انگلیاں بھی ٹیڑھی ہو گئیں ہاتھ پیر ٹیڑھے میڑھے ہو گئیے اور نہ چلنے کے قابل رہی نہ ہاتھ سے کوی چیز پکڑنے کے قابل رہی
علاج کے طریقہ کار کے طورپر ڈاکٹروں نے آپریشن کرکے بیڑ سرکاری دواخانہ میں بھیج دئیے بیڑ والوں نے پٹی بینڈس کرکے دواخانے سے چھٹی کرکے بولے اگلے مہینے فلاں تاریخ کو آنا چھٹی ہو گئی مگر یہ لڑکی پلنگ پر پڑی رہی نرسوں نے بولی گھر جاؤ مگر یہ نہیں گئی اور اپنی پوری کہانی سناکر بولی کہ میرے ماں باپ نے مجھے گھر آنے سے منع کیا ہیے کیونکہ جس وقت میں اسلام چھوڑ کر ھندو بن کر اس لڑکے سے شادی کر رہی تھی تب میرے ماں باپ گھر خاندان گاؤں والوں نے سب نے مجھے سمجھایا تھا مگر میں نے کسی کی بات نہیں مانی تب میرے ماں باپ اور بھاییوں نے کہا تھاکہ جارہی ہوتو پھر واپس نہیں آنا تو اب وہ لوگ یعنی گھر والے مجھے گھر میں آنے نہی دے رہیے اس لئیے اب میں ہاسپٹل سے نہی جاتی
یہ بات ڈاکٹروں کو پتہ چلی تو ڈاکٹروں نے کولہا پور کے آر ایس ایس کے آشرم والوں کو بات کئیے آشرم والوں نے اس لڑکی کو لینے اور سنبھالنے راضی ہو گئیے مگر اسی دوران مادل موہی کے طیب سر کے ذریعہ حافظ مولانا اکبر صاحب کو یہ بات معلوم ہوی کہ مسلم لڑکی آر ایس ایس کے قبضے میں جارہی تو ہم سب مل کر ہاسپٹل جاکر اس لڑکی سے ملے پوچھے تو اس نے بولی مجھے یہاں سے نکالو اور سنبھالو ہم نے اس سے کہا کہ ہمارے پاس پیسہ زکوات کا ہیے اور یہ پیسہ ھندو پر خرچ نہیں ہوتا اس پر وہ لڑکی بولی میں مسلمان ہوں صرف اس لڑکے کے پیار میں میں نے ایسا قدم اٹھایا ہوں ۔
ہم نے اسکو کہاکہ ایک شرط پر ہم تیری مدد کرےگے وہ یہ کہ ڈبل سے کلمہ پڑھ کر مسلمان بن جاؤ اور سارے پیپر واپس کارڈ وغیرہ جیسے پہلے تھے یعنی مسلمان اور اسلامی ویسے بناؤ اس پر وہ لڑکی تیار ہوی اور ہم نے اسکو ایک روم کرایہ پر لے کر رکھے کھانے کا میس کا ڈبا لگاے اور اب تین سال سے وہ لڑکی ہمارے پاس ہیے اسکا علاج چل رہا ہاتھ کی انگلیاں تو ابھی تک ٹھیک نہیں ہوی مگر چلنا آرہا دینی تعلیم و تربیت کے لئیے مرکز کے مؤذن حافظ سکندر صاحب کے گھر عربی اردو کا ٹی وی شن لگاے ہیں اب اسکا قرآن بھی شروع ہوا اور اردو بھی کچھ کچھ آرہی اور اب اسکے لئیے کسی مسلم لڑکے سے شادی کرانے کے لئیے رشتے کی تلاش ہیے فی الوقت یہ لڑکی بندل پورہ میں رضوان سر کے گھر میں کراے سے روم لے کر رکھے ہیں ایوب خان پٹھان بڑی راج گلی ندی کنارہ انکے گھر سے اس لڑکی کو پچھلے چند ماہ سے کھانا آتا ہیے گھر کا کرایہ اور علاج ہم لوگ یعنی دار ارقم والے کرتے ہیں اس بنیاد پر کہ مسلم مرتد دوبارہ اسلام میں آی
یہ سب ہم نے اسلئیے لکھے ہیں کہ مسلم لڑکیوں کو یہ سب بتاؤ کہ ھندو لڑکے کے چکر میں پھنس کر مسلم لڑکیاں جاتیں اور پھر یہ حشر ہوجاتا سنا سنایا نہیں بلکہ جسکو دیکھنا ہو خود آکر دیکھو اور میڈیا والے انٹریو لینا چاہتے ہوتو وہ بھی کر لو مسلم لڑکیوں کو بتاؤ کہ یہ حشر ہوتا ہیے۔
ہاں ایک بات لکھنا بھول گیا تھا وہ یہ کہ مذکورہ مرتد بالاسلام سے پھر مسلمان لڑکی کو الخیر ادارہ والے ہر ماہ اناج کا ایک پوٹلا بھی دیتے ہیں جسکو انگریزی نواز کیٹ کہتے ہیں اسی طرح گا ہیے ماہیے خدمت خلق والوں نے بھی نقدی کی مدد کی ہیے
گھر کی عورتوں کے ذریعہ سے یہ کہانی گھرکی لڑکیوں تک پہونچانا ضروری ہیے تاکہ لڑکیوں کو پتہ چلے کہ مان باپ گھر خاندان والونکی بات نہ مان کر غلط قدم کا یہ نتیجہ ہوتا ہیے کہ اب وہ لڑکی نہ ماں باپ کے رہی نہ اس کمینہ عاشق کے کی رہی بلکہ معلق ذندگی عوام الناس کے کندھوں اور رحم وکرم پر جینا ہیے۔
مولانا حافظ مرزا عبدالعزیز بیگ صاحب کے قلم سے.
اس کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیجیے!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں