بھیونڈی کی صلاح الدین ایوبی اسکول کی ہٹلر شاہی سے طلبا و سرپرستوں میں ناراضگی
بچوں کے مستقبل کو لے کر والدین فکر مند
بھیونڈی : تعلیمی ادارہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں طفلان مکتب کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے اس کی علمی پیاس کو سیراب کیا جاتا ہے. درس و تدریس کا پیشہ انتہائی معزز پیشہ کہلاتا تھا مگر وقت کے ساتھ یہ بھی زمانے کے رنگ میں رنگنے لگا. اب یہ خالص ایک بزنس بن گیا ہے. پہلے کم سے کم فیس میں بچہ انتہائی معیاری تعلیم کرتا تھا حو کہ اس کے اخلاق سے ظاہر ہوتی تھی مگر جب سے تعلیم و تعلم کا رشتہ تجارت سے منسلک ہوگیا تو بالکل اسی طرح جیسے پہلے ایک روپیہ میں تھیلا بھر کر اناج آتا تھا تو ایک روپئے کے سکے پر اناج کی بالیاں ہوتی تھیں مگر اب ایک روپئے میں کچھ نہیں آتا ہے تو اس پر ٹھینگا بنا ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ پہلے کسی چڑانے کے لئے بتایا جانے والا ٹھینگا شوشل میڈیا پر ترقی کرکے لائک بن چکا ہے . تو بات چل رہی تھی تعلیمی اداروں کے بزنس کی. اپنے شروعاتی دور میں اسے سب سے پہلے رشوت نے گلے سے لگایا اور اسکول میں پہنچ کر یہ رشوت ایک کوالیفائیڈ ڈونیشن بن گئی. اسکول کی عمارت کشادہ ہوئی اور کچھ سہولیات دستیاب کی گئی تو ثواب جاریہ کی طرح ہر سال اس کی فیس میں اضافہ ہی دیکھا گیا.
سال 2020 نے پوری دنیا کو تباہی کے ایک دہانہ ہر کھڑا کردیا تھا. ہر موت رقص کر رہی تھی. اس کٹھن وقت میں جب کہ ساری دنیا لاشوں کے دھیڑ پر کھڑی تھی. کاروبار وغیرہ سب بند تھے. سال بھر کا یہ وقت تو گزر گیا مگر 2021 کے شروع ہوتے اسکولوں سے فیس کا مطالبہ ہونے لگا. 2020 تو اچھے اچھوں کو زندگی کا فلسفہ سمجھا گیا تھا مگر اسکول انتظامیہ نے 2020 کی فیس معافی تو دور کی بات کٹوتی تک نہیں کی. آج عالم یہ ہے طلبا و طالبات کی فیس بقایا ہے. اس بقایا فیس اسکول انتظامیہ جہاں طلبہ و طالبات سے ہٹلر شاہی انداز میں وصول کر رہی ہیں. اس ضمن میں بھیونڈی کے مشہور و معروف تعلیمی ادارے صلاح الدین ایوبی اسکول سے سرپرستوں نے نمائندے سے بذریعہ رابطہ کیا. سرپرستوں نے اسکول انتظامیہ کی بے حسی کی وہ تصویر پیش کی کہ ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟ سرپرستوں نے نمائندے کو بتایا کہ بقایا فیس کی وصولی کے لئے بچوں کو سالانہ امتحان دینے سے روکا جارہا ہے . اور حو بچے پیپر لکھ رہے ہیں ان سے کہا جارہا ہے کہ فیس جمع نہیں کئے تو جوابی پرچہ مٹا دیا جائے گا. ایک سرپرست کا کہنا ہے کہ ہم نے بقایا فیس کی کچھ رقم جمع کرائی اس کے باوجود بچے کو پیپر دینے سے روک دیا گیا. اس بارے میں ٹیچر نے کہا کہ جس طرح قسط میں فیس جمع کر رہے ہیں اسی طرح قسط میں بچوں کے پیپر بھی لئے جائے گے.
عبایہ جمیل ملک جماعت ہفتم کے سرپرست بھی اسکول انتظامیہ سے کافی بدظن ہیں. اسکول کسی بھی طرح کو آپریٹ کرنے کو تیار نہیں.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں