سپریم کورٹ میں اردو کا مرثیہ
آج سپریم کورٹ میں 12 بج کر 10 منٹ پر چیف جسٹس کی آئینی بنچ میں بے چاری اردو کا ذکر خیر ہوا۔
شوسینا کے قضیہ پر سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے وکیل اور سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے ایک شعر پڑھا۔ وہ در اصل چیف جسٹس کے ایک سخت تبصرہ پر اس شعر کو فٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ یہ تبصرہ اگر حتمی فیصلہ میں بھی آگیا تو شوسینا کے باغیوں کے سر پر تلوار لٹک جائے گی۔۔
شعر یہ تھا:
میں چُپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں
وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں
چیف جسٹس جو فی الواقع صورتحال پر کچھ سخت تبصرہ کر چکے تھے اچانک مسکرا اٹھے۔۔ پھر مسکراہٹ "کھکھلاہٹ" میں بدل گئی ۔۔ آج پہلی بار انہیں بھی انگریزی کے علاوہ دوسری زبان میں بولتے ہوئے سنا۔۔ انہوں نے دلچسپی لیتے ہوئے مصرع ثانی کو دوہرایا۔۔۔
چیف جسٹس نے انگریزی میں پوچھا کہ اس شعر کا خالق کون ہے۔۔۔ کیا اقبال؟.... تشار مہتہ نے کہا کہ وسیم بریلوی ۔۔ انہوں نے وسیم بریلوی کو عصر حاضر کا ایک عظیم شاعر قرار دیا ۔۔ چیف جسٹس نے کپل سبل کا نام لے کر شعر کے بارے میں ان کی رائے جاننی چاہی۔۔ اسی دوران تشار مہتہ نے کہا کہ اردو بڑی زبردست اور پیاری زبان ہے۔۔ کپل سبل نے کہا کہ یقیناً یہ زبان بہت عظیم ہے مگر اب یہ مر رہی ہے ۔۔۔
کپل سبل کا یہ جملہ کانوں سے بار بار ٹکرا رہا ہے۔۔۔ اب اردو مر رہی ہے۔۔۔
ودودساجد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں