src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> اردو صحافت کا فن و ارتقائی سفر - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 19 مارچ، 2023

اردو صحافت کا فن و ارتقائی سفر

 





اردو صحافت کا فن و ارتقائی سفر



محمد ضیا ء العظیم (پھلواری شریف ،پٹنہ)

موبائل نمبر 7909098319 


صحافت عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جو لفظ صحیفہ سے مشتق ہے ۔ صحافت کا مترادف لفظ Journalism ہے ۔ جس کا ماخذ لاطینی لفظ Diumal ہے ۔ صحافت کو ابتداء ہی سے اطلاع رسانی کے ساتھ ساتھ معاشرتی بیداری کا سب سے موَثر وسیلہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اردو صحافت کا جنم اردو شاعری کی طرح فارسی صحافت کی کوکھ سے ہوا ۔ ہندوستان میں فارسی زبان کے اخبارات مغل حکومت کے سنہری دور میں جاری ہوئے ۔ لیکن یہ فارسی اخبارات بھی فارسی شاعری کی طرح عام ہندوستانی معاشرے سے لاتعلق تھے فارسی اخبار تک صرف طبقہ اشرافیہ کی دسترس تھی ۔ علامہ عتیق صدیقی کی مشہور کتاب ’’فوزی‘‘کے حوالے سے گروبچن چندن نے اپنے ایک مضمون میں مغلیہ اخبار کے متعلق گفتگو کی ہے:


’’اورنگ زیب عالمگیر ر ح کے زمانے میں شاہی محل کے لیے روزانہ ایک اخبار شاءع کیا جاتا تھا ۔ یہ اخبار آج کی طرح چاندنی چوک میں آواز لگا کر بیچا نہیں جاتا تھا ۔ مزید ان کے پیش رومغل بادشاہوں کے وقت میں بھی ایک اخبار شاہی محل کے لیے جاری ہوتا تھا ۔ اور اسکی نقلیں دور دراز کے علاقوں کے امرا وغیرہ کو بھیجی جاتی تھیں ۔ مغل عہد کے کئی سو اخبارات لندن کے رائل ایشیا ٹک سوساءٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں ۔ ‘‘(اردو صحافت ماضی اور حال ۔ از خالد محمودو سرور الہدی ص ۱۶۴ ۔ )


صحافت کو سماجی تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں اس کے رول کو اساسی سمجھا جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ آزادی وطن سے قبل کے متعدد سماجی مصلحتوں ،سیاسی لیڈروں ،مفکروں ،دانشوروں نے فرسودہ معاشرتی رسوم کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے اور غیر ملکی تسلط کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے اخبار و جرائدکو ہی وسیلہ بنایا اور اخبارات نکالے اور اسی کے ذریعہ صدائے حق بلند کیں ۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں صحافت کا کردار تاریخی رہا ہے،یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحافت نے آزادی دلانے میں بنیادی رول ادا کیا ۔ صحافت کی آزادی میں کی گئی خدمات کو دیکھتے ہوئے بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہیں کہ اردو صحافت نہ ہوتی تو شاید ہندوستان کی آزادی کا کو سورج دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ آزادی اور انقلاب کے جذبے کو بیدا ر کرنے میں اردو صحافت کا اہم رول رہا ہے ۔ ساتھ ہی اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں جوخدمات صحافت نے انجام دی اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ آج کے عہد میں اردو زبان بہ ذریعہ صحافت عوام تک پہنچ رہی ہے او رسیع پیمانے پر خدمات انجام دے رہی ہے ۔


دنیا کے تمام فنون کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں ،صحافت کا فن بھی ایسا ہی ہے ۔ انسان جب سے دنیا میں سماجی زندگی بسر کررہا ہے ۔ خبروں کی ترسیل بھی اسی عہد سے جاری ہے ۔ ابتدا میں انسانی معلومات کی ترسیل کا کیا معیار تھا یہ اس عہد کے مذہبی صحیفوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ جیسے جیسے انسان متمدن اور مہذب طرز معاشرت کی طرف بڑھتا رہا خبروں کی ترسیل کا مرحلہ بھی فنی لحاظ سے مستحکم بننے لگا ۔ اور دیگر علوم کی طرح اس کے بھی اپنے کچھ اصول و ضوابط تیار کیے گئے ۔ عہد جدید میں صحافت کو باقاعدہ ایک علمی فن تسلیم کیا گیا ہے ۔ آج زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ہے جس میں اس کا عمل دخل نہ ہو ۔ ماہرین صحافت نے اس فن کو جدید خطوط پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ ہندوستان میں اس فن کو انگریزوں نے ترقی دی اور اسے کچھ قوانین کا پابند بھی بنایا ۔ حالانکہ آگے چل کر انگریزوں نے فن صحافت پر قدغن بھی لگائی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ بحیثیت فن صحافت اور اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا ۔ اس ضمن میں محترم محمد شکیل و نادر علی خان ہندوستانی پریس کے حوالے سے لکھتے ہیں :


’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے وجود سے جہاں لامتناہی نقصانات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ وہیں فنون طباعت و صحافت میں مفید اضافے بھی ہوئے چناچہ موجودہ صحافت کا سنگ بنیاد بھی اسی کا رہین منت ہے ۔ ‘‘ (اردو دنیا دسمبر ۲۰۱۵ ۔ ص ۔ ۲۱ ۔ )


اسی طرح صحافت کے سلسلے میں ذیل میں چند تعریفیں ملاحظہ فرمائیں ، جس سے صحافت کے ساتھ ساتھ اس کے فن کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ عبدالسلام خورشیدلکھتے ہیں :


’’صحیفے سے مراد مطبوعہ مواد ہے جو مقررہ وقفے کے بعد شاءع ہوتا ہے چنانچہ تمام اخبارات و رسائل صحیفے ہیں اور جولوگ اس کی ترتیب وتحسین اور تحریرسے وابستہ ہیں انھیں صحافی کہا جاتاہے اور ان کے پیشے کو صحافت کا نام دیا گیا ہے ۔ ‘‘(عبدالسلام خورشید ۔ فنِ صحافت، مکتبہ کاروان، لاہور)


اسی طرح ولیم ایل راءکرس لکھتا ہیں ’’عوام یا عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے ہر واقعہ کو خبر بنایا جا سکتاہے ۔ ‘‘


ویلم بروکس کے مطابق :’’جو واقعہ معمول سے ہٹ کر ہو وہ خبر ہے ۔ ‘‘جب کہ فریڈ مورس کے لفظوں میں ’’جو چیز ہماری زندگی کو فوراً متاثر کرنے والی یا اثر انداز ہونے والی ہو خبر ہے ۔ ‘‘


اسی طرح مشرقی مفکر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید صحافت کے ضمن میں لکھتے ہیں :


’’صحافت ایک عظیم مشن ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے ۔ عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو ۔ صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے ۔ اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فراءض بھی سر انجام دیتی ہے ۔ عوام کی خدمت اس کا مقصد فرض ہے ۔ اس لیے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ‘‘(بحوالہ : ابلاغیات ۔ ۔ از ڈاکٹر محمد شاہد حسین ص ۴۴ )


ان تعریفوں میں بیان کردہ موضوعات کے علاوہ بھی جنسیات،تشدداور معاشیات سے جڑی بد عنوانیاں ،علمی،ادبی شخصیات،کھیل اور فلم کے فنکاروں سے متعلق معلومات اور بیداری مہم سے متعلق موادبھی خبر کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس طرح خبر کی کوئی ایک جامع تعریف کرنی مشکل ہے ۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ:


صحافت یا خبر وہ ہے جو عوام کی زندگی سے جڑی ہوئی حقیقتوں سے عوام کو روشناس کرائے، کسی بھی واقعے، حادثے،سانحے، تشدد، ارضی و سماوی آفات یا اس سے متعلق پیشین گوئیاں ، اقتصادی سرگرمیاں ،سیاسی نشیب وفرازاور تفریحی مشاغل وغیرہ خبر کے دائرے میں آتے ہیں ۔ فن صحافت کی تفہیم کے لیے چند رسومیات فن صحافت درج ہیں ۔ (۱)خبروں کی حصولیابی کے تمام طریقہء کار سے با خبری(۲) ذراءع ابلاغ سے رشتہ (۳)خبروں کی تفہیم پر دسترس (۴) الیکٹرانیک میڈیا کا شعور(۵) زبان و بیان پر گرفت(۶) صحافتی کو حق گو ہونا چاہیے،(۷) بے باک بھی ہونا چاہیے(۸)، صحافی کا شعور انتہائی مستحکم اور پائدار ہونا چاہیے،(۹)صحافتی فرقہ پرستی سے پاک ہو(۰۱) کسی بھی گروہ بندی کا شکار نہ ہو ۔ وغیرہ یہی وہ عناصر ہیں جو کسی بھی صحافی کو صحافت کے میدان میں سرفراز اور کامیاب بناتے ہیں ۔


ہندوستان میں اردو صحافت کا باضابطہ آغاز سن ۱۸۲۲ سے ہوا ۔ جام جہاں نما‘‘ اردو کا اولین مطبوعہ اخبار ہے ۔ جو ۲۷ مارچ ۱۸۲۲ کو کلکتہ سے جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر منشی سداسکھ لعل اور مالک ہری ہر دت تھے ۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا ۔ یہ اخبار فارسی ٹاءپ میں چھپتا تھا ۔ چوں کہ اْس وقت فارسی ٹاءپ کا ہی رواج تھا اس اخبار کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ اردو کا پہلا اخبار تھا اور اسکے ایڈیٹر اور مالک غیر مسلم تھے ۔ جدو جہد آزادی ۱۸۵۷ سے قبل ہندوستان کے مختلف شہروں سے متعدد اردواخبارات جاری ہوچکے تھے ۔


اردو کے مشہور و معروف ادیب مولانامحمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے ۱۸۳۶ میں جاری کیا تھا ۔ یہ اخبار اپنے عہد کی عکاسی کرتا تھا ۔ جدوجہد آزادی میں مولوی محمد باقر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اردو کے پہلے شہید صحافی کے طورپر آپک کوموسوم کیا جاتا ہے ۔ مولوی محمدباقر کا اپنا ایک چھاپا خانہ اور ایک بڑی لائبریری بھی تھی ۔ جو ۱۸۵۷ کی لڑائی میں تباہ ہوگئی ۔ لیکن ’’دلی اردو اخبار‘‘ نے ایک تاریخ ضرور ثبت کردی ۔ ہندستان کی تاریخ میں یہ عہد اردو اخبارات کا سنہرا دور بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس عہد میں ہندستان کے کونے کونے سے کئی اہم اخبارات و رسائل جاری ہوئے ،کئی اہم پریس کھلے جس کے سبب اردو زبان و ادب کو بھی فروغ ہوا،مثلا ۱۸۴۲ میں چنئی سے ’’جامع الاخبار‘‘ جاری ہوا ۔ اسے جنوبی ہند کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ سید رحمت اللہ اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔ یہ اخبار اپنے عہد کا دلچسپ مرقع اور دل کش ترجمان تھا ۔ اسی طرح ایک اور اہم خبار ۱۸۴۵ میں دہلی کالج سے ہفت روزہ ’’قرآن السعدین‘‘ جاری ہوا ۔ اس کے پہلے ایڈیٹر پنڈت دھرم نارائن بھاسکر تھے جو غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے ۔ اس اخبار میں سائنسی،ادبی اور سیاسی مضامین شاءع ہوتے ۔ علمی افادیت اور اردو مضامین کے تنوع کے اعتبار سے ہندوستان کے ممتاز اخبارات میں شمار ہوتا تھا ۔ اسی طرح اتر پردیش لکھنوَ کا پہلا اخبار’’لکھنوَاخبار‘‘ کے نام سے۱۸۴۷ میں جاری ہوا،جس کے ایڈیٹر لال جی تھے ۔ ۱۸۵۶ میں لکھنءو سے کئی اخبار ات جاری ہوئے ۔ رجب علی بیگ سرور کے دوست مولوی محمد یعقوب انصاری نے ’’اخبار طلسم لکھنو‘‘ جاری کیا ۔ اس کے علاوہ امیر مینائی اور رگھوویر پرشاد نے’’سحر سامری‘‘ اور عبد اللہ نے’’مخزن الاخبار‘‘جاری کیا ۔ میرٹھ سے ’’جام جمشیدی‘‘ جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر بابو شیو چندر ناتھ تھے ۔ اس سے قبل آگرہ سے ۱۸۴۶ میں ’’صدرالاخبار‘‘ جاری ہوا جسے آگرہ کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ سن ۱۸۴۹ میں چنئی سے ایک اور اخبار ’’آفتاب عالم تاب‘‘ جاری ہوا ۔ اس کی خبروں کا حوالہ مشہور ریاضی داں ماسٹر رام چند ر کے اخبار ’’فوائد الناظرین‘‘ میں پایا جاتا ہے ۔ ۱۸۵۰ میں لاہور سے ’’کوہ نور‘‘ جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر منشی ہری سکھ رائے تھے ۔ ۱۸۶۶ میں ’’سائنٹفک سوساءٹی‘‘ کا اجرا عمل میں آیا ۔ جس کے روح رواں اور مرکز اور محور سرسید احمد خان تھے ۔ سن ۱۸۷۷ میں لکھنو سے ایک بڑا اخبار’’اودھ پنچ‘‘ منظر عام پر آیا ۔ اسے منشی سجاد حسین نے ’’لندن پنچ‘‘ کے طرز پر جاری کیا تھا ۔ یہ اخبار ۳۵ برس تک جاری رہا ۔ اردو عربی اور فارسی کی کتابوں کی طباعت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے منشی نول کشور نے ۱۸۵۸ میں لکھنو سے ’’اودھ اخبار‘‘شروع کیا ۔ یہ اخبار پہلے ہفت روزہ تھا پھر یہ سہ روزہ ہوا اور ۱۸۷۷ میں یہ اخبار روزنامہ ہوگیا ۔ اپنے دور کا اردو کا یہ بہت بڑا اخبار تھا ۔ یہ پہلا اردو اخبار تھا جس کے رپورٹرمختلف صوبوں کی راجدھانیوں میں نمائندے رہے ۔ اردو کے نامور ادیب و شاعر اس اخبار سے وابستہ تھے ۔ آج بھی اس اخبار کی تحریریں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ اخبار کئی معنوں میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے ،آج بھی اردو زبان و ادب کی تاریخ میں اس اخبار کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔


اردو صحافت کی تاریخ مولانا ابوالکلام آزاد کے ان اخبارات کے ذکر کے بنا ادھوری تسلیم کی جاتی ہے ۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ یہ تاریخ ساز اخبارات تھے ۔ سن ۱۹۰۱ میں شیخ عبدالقادر نے لاہور سے ’’مخزن‘‘ جاری کیا ۔ اردو کے مشہور و معروف شاعر حسرت موہانی نے سن ۱۹۰۳ میں ’’اردوئے معلی‘‘ اخبار جاری کیا ۔ یہ ایک ادبی رسالہ تھا ۔ لیکن سیاسی موضوعات پر بھی اس میں مضامین شاءع ہوتے تھے ۔ سن ۱۹۰۸ میں خواتین کا رسالہ ’’عصمت‘‘دہلی سے جاری ہوا ۔ اس کے ایڈیٹر شیخ محمد اکرام اور پھر علامہ راشد الخیری رہے ۔ اردو کے ایک عظیم صحافی مولانا محمد علی جوہر نے ۱۹۱۲ میں دہلی سے ’’ہمدرد‘‘ اخبار جاری کیا ۔ یہ اخبار حکومت کا نکتہ چیں تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۵ میں یہ اخبار بند ہوگیا ۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد جاری ہوا ۔ ان کے علاوہ سینکڑوں اخبارات جاری ہوئے ۔ لیکن ان کی اشاعت،مالی وسائل اور قارئین کی کمی کے باعث بند ہوگئے ۔ لیکن بعض اخبارات مختلف مسائل کے باوجود آج بھی جاری ہیں اور قابل تحسین خدمات انجا م دے رہے ہیں ۔ اردو اخبارات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے ۔ اردو صحافت نے معاشرے کو ایک خاص ڈگر پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کررہے ہیں ۔ جس کا اعتراف ہ میں کھلے دل سے کرنا چاہیے ۔ اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے ۔ حالانکہ آج کے عہد میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں ،پہلے جیسا ماحول نہیں رہا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اردو اخبارات بڑی تعداد میں آج بھی نکل رہے ہیں ،جن میں سیاسی ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی موضوعات کے ساتھ ساتھ علمی وادبی ،مذہبی اور سنجیدہ موضوعات ہر بھی مضامین لکھے جارہے ہیں ۔ اردو صحافت کی تابناک تاریخ اور اس کے فن کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں ممکن نہیں لیکن اس چھوٹی سی کوشش میں تمام اہم پہلووَں کو سمونے کی ان کا حاطہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ امید ہے میری کاوش آپ سب کو پسند آئے گی ۔


استفادہ کتب


(1)ابلاغیات ڈاکٹر شاہد حسین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔


(2)الیکٹرانک میڈیا میں ابھرتے رجحانات ڈاکٹر طارق اقبال صدیقی ۔


(3)عوامی ذراءع ترسیل ڈاکٹر اشفاق محمد خاں ۔


(4)میڈیا روپ او ربہروپ سہیل انجم ۔


(5)آئینہ خانے میں ، مطبوعہ، افکار، کراچی، دسمبر، 1963 ۔


(6)اردو صحافت نگاری ،اودھ نامہ ڈاٹ کام ۔


(7) ابلاغیات ۔ ۔ از ڈاکٹر محمد شاہد حسین ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔


(8)فن صحافت ۔ از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔


(9)اردو صحافت ماضی اور حال ۔ از خالد بجمحمودو سرور الہدی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔


(10)اردو صحافت مسائل اور امکانات ۔ از ڈاکٹر ہمایوں اشرف ۔


(11)اردو دنیا شمارا دسمبر۵۱۰۲ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages