src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> اب ناموں کا بھگوا کرن - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 4 مارچ، 2023

اب ناموں کا بھگوا کرن




 


اب ناموں کا بھگوا کرن

 
حافظ عزیز الرحمان

9370465545
 





کہاوت مشہور ہے کہ رکاما بنیا کیا کرے، خالی بورا ادھر اُدھر کرے. یہ کہاوت مرکز کی مودی حکومت پر صادق آتی ہے. جب کسی ملک کی عوام کو یہی پسند ہو کہ مفاد عامہ اور ترقیاتی کاموں کی بات نہ کرتے ہوئے صرف ذات پات، دین دھرم، مسجد و مندر، شمسان و قبرستان اور زندہ باد مردہ باد کی سیاست کی جائے. تو پھر حکمراں کر بھی کیا سکتے ہیں. وہ تو مجبور ہوتے ہیں ان کاموں کی انجام دہی کے لیے. 

ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازشوں میں ایک سازش مسلم ناموں کی تبدیلی بھی ہے. یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک ہندو راشٹر ہو اور شہر و قصبے مسلم ناموں پر ہوں. تاریخ کو مسخ کرنا یا مٹانا بھی ان کا اہم منصوبہ ہے. ہم کیسے اپنی نسلوں کو یہ بتائیں گے کہ اس ملک پر کبھی مسلمان بھی حکومت کیا کرتے تھے. ظاہر ہے جب ان کا نام و نشان مٹادیا جائے گا. تاریخ کو مسخ کردیا جائے گا تو پھر کون اتنا بیدار ہے کہ نسلوں کو  تاریخ سے واقف کرائے گا جب کہ نئی نسلوں کو تو تاریخ بابری مسجد بھی یاد نہ رہی. 

اقتدار کے نشہ میں چور حکمرانوں نے احمد نگر کو نگر، الہ آباد کو پریاگ راج، فیض آباد کو ایودھیا، مومن آباد کو امبا جوگائی، دولت آباد کو دیوا گری، اور اب اورنگ آباد کو سنبھاجی نگر تو عثمان آباد کو دھارا شیو کرنے کا فیصلہ کیا ہے. اگرچہ کہ اورنگ آباد کو سنبھاجی نگر کرنے کی تجویز 1988 میں بال ٹھاکرے نے رکھی تھی لیکن قدرت کی مار دیکھئے کہ آج ان کی اولادوں کو اپنا سیاسی وجود بچانا مشکل ہورہا ہے. اب آپ ہی بتائیں کل سے کون اورنگ آباد کو اورنگ آباد کہے گا. اخبارات ہو، میڈیا ہوں، سرکاری دفاتر ہوں یا دکانوں کے سائن بورڈ ہوں. ہر جگہ سنبھاجی نگر ہی نظر آئے گا. اگر کوئی یہ کہے کہ میں سنبھاجی نگر کی بجائے اورنگ آباد ہی کہوں اور لکھوں گا تو یقیناً اس پر قانونی کاروائی ہوگی. قابل ذکر یہ ہے کہ یہاں کے باشندوں نے کبھی اپنے شہر اور قصبے کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا. ایسا بھی تو نہیں ہوتا کہ تجویز پاس کردی جائے اور نام تبدیل ہوجائے، بلکہ تبدیلی نام پر پر سرکاری دستاویزات میں بھی تبدیلی کرنی پڑتی ہے. جس پر چھوٹے شہروں میں 500 کروڑ تو بڑے شہروں میں 1000 کروڑ کا خرچ آتا ہے. ایسا بھی تو نہیں ہوتا کہ تبدیلی نام سے ترقی سر پٹ دوڑنے لگ جائے، شہریان کی توقعات پوری ہوجائیں یا پھر تمام مسائل تبدیلی نام کی وجہ سے جھٹ پٹ حل ہوجائیں.



شیکسپیئر نے کہا تھا: نام میں کیا رکھا ہے! ایک گلاب کو کوئی سا نام بھی دے دیں، وہ گلاب کا پھول ہی رہے گا، اس کی خوشبو اور رنگ روپ بدلے گا نہیں. میں اس بات کی نفی کرتا ہوں. بلکہ یہ مانتا ہوں کہ نام ہی تو سب کچھ ہے، کسی انسان کو آپ دوسرے نام سے پکاریں تو وہ آپ کو پہچاننے سے انکار کردے گا، آپ کی بات کا جواب نہیں دے گا اور اگر ذرا زندہ دل واقع ہوا تو آپ کے گلے پڑ جائے گا۔ میں نے کئی بار لوگوں کو نام کے بگاڑنے پر لڑتے اور دست و گریبان ہوتے دیکھا ہے. کیا ہر کوئی اس کوشش میں نہیں ہے کہ اس کا نام اونچا ہوجائے. کیا والدین اپنے بچے کے اچھے نام کیلئے جتن نہیں کرتے؟ نام تو تہذیب ہے، ثقافت ہے. نام تو شان ہے. پہچان ہے.*



ارباب اقتدار کو اگر نام بدلنے کی اتنی ہی چاہت ہے تو انھیں چاہیے کہ کوئی نیا شہر، اسکول، کالج اور یونیورسٹی بنالیں. اور اس کا نام اپنی پسند سے رکھیں. پھر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا. لیکن ایسا کرنے کی تو ان کی اوقات نہیں. یاد رکھئے..اگر نام بدلنے سے تہذیب زندہ ہوتی ہے تو کسی دوسرے کی تہذیب و ثقافت کو طاقت کے زعم پر ہتھیالینے سے وہ داغدار بھی ہوتی ہے. بہر حال جب تک اقتدار پاس ہے تو شدھی کرن کا یہ بھوت اترنے والا نہیں ہے. کیونکہ انھیں خار ہے، چبھن ہے اور شدید نفرت ہے مسلم ناموں سے. بہرحال ہمیں یقین ہے کہ وہ وقت جلد ہی آئے گا کہ ہم شہروں کو واپس ان کا نام دلائیں گے. ہم جلد ہی واپس بابری اپنی جگہ پر بنائیں گے. لیکن ابھی یہ وقت احتجاج ہے. یہ وقت مداخلت ہے کہ زندہ قوموں کی نشانیاں یہی ہے کہ وہ اپنی شناخت پر حرف آنے نہیں دیتی. ویسے تو ہر نام مٹنے والا ہے سوائے اللہ رب العزت کے. کہ باقی رہے نام اللہ کا.

 شکریہ خدا حافظ.....

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages