عبداللہ اعظم۔خان کو بھی اسمبلی رکنیت سے محروم کردیاگیا !
✍: سمیع اللہ خان
اعظم خان کےبعد اب عبداللہ اعظم کی بھی اسمبلی ممبرشپ ختم ہوگئی ہے، عبداللہ اعظم کو ایم۔ایل۔اے سیٹ سے برطرف کروانے کے لیے ایک ۱۵ سالہ پرانے معاملے کا سہارا لیا گیاہے ایسا معاملہ جو ازخود منہ بولتا ثبوت ہےکہ اترپردیش میں اعظم خان گھرانہ کس درجے کی انتقامی سیاست کا شکار ہے،
عبداللہ اعظم کو ۱۵ سال پہلے جنوری ۲۰۰۸ میں ایک ٹریفک قانون کےخلاف ورزی کرنے کی سزا سنائی گئی ہے، معاملہ یہ تھا کہ وہ ۲۰۰۸ میں ایک کار چلا رہےتھے جس کے شیشوں پر سیاہ پردے چڑھے تھے اور اترپردیش پولیس کےمطابق عبداللہ اُس گاڑی کے کاغذات پیش کرنے میں ناکام رہےتھے، پندرہ سال پرانے اس چھوٹے سے ٹریفک مقدمے پر دو دن پہلے فیصلہ سنایا گیا، جس میں عبداللہ اعظم کو عدالت نے دو سال جیل بھیجنے کا حکم سنایا ہے، عبداللہ اعظم کےخلاف آنے والے اس فیصلے کی وجہ سے ان کی اسمبلی ممبرشپ پر خطرہ منڈلانے لگاتھا اور بالآخر آج انہیں اس سزا کی بنیاد پر نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی جیتی ہوئی ایم۔ایل۔اے سیٹ سے برطرف کردیاگیا ہے،
جس ۱۵ سالہ قدیم مقدمے کی بنیاد پر انہیں برطرف کروایا گیا ہے وہ ۱۵ سالہ قدیم مقدمہ ابھی کیوں باہر نکلا یا نکالا گیا شاید اس کی وضاحت کی کوئی ضرورت باقی رہ نہیں جاتی ہے۔ آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کا ایسا ننگا ناچ آزاد بھارت میں اس سے پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا_
ابھی چند مہینوں پہلے اکتوبر ۲۰۲۲ میں اعظم خان کو بھی ان کی اسمبلی ممبرشپ سے محروم کردیاگیا تھا، اس سے پہلے مختلف مقدمات میں پھنسا کر یوگی سرکار نے انہیں جیل میں بدترین انداز میں رکھا تھا بڑی سخت تگ و دو کےبعد انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت مل پائی تھی، جیل سے باہر نکلنے کے لیے ضمانت مل جانے کےبعد یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کےخلاف سیاسی انتقام کا مزید گہرا وار کیا اور انہیں ان کی ایم۔ایل۔اے سیٹ سے برخاست کروادیا، اور اب چند مہینوں کے اندر ہی ان کے بیٹے سے بھی اسمبلی سیٹ چھین لی اور اس طرح اعظم اور عبداللہ دونوں خاں صاحبان کو عوامی نمائندگان کی حیثیت سے بےدخل کردیا ہے، یہ بہت ہی واضح ترین ثبوت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اعظم خان کو اترپردیش کی سیاسی بساط پر دیکھنا نہیں چاہتی ہے، یوگی سرکار اعظم خان اور ان کے گھرانے کا سیاسی کیریئر ختم ہی نہیں بلکہ دفن کرنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے اور اس مقصد کے لیے جس طرح کے انتقامی ہتھیار استعمال کررہی ہے وہ انتہائی ظالمانہ شرمناک اور ذلت آمیز ہیں، اعظم خان کی سیاست اور طرز سیاست سے بےشمار اختلافات ہوسکتےہیں لیکن اترپردیش میں اعظم خان کی سیاسی زندگی مسلمانوں کو بےوزن کرنے میں مانع ہے کیونکہ اعظم خان جب کبھی ایوانوں میں بولتے تھے تو لگتا تھا کہ کوئی باوقار اور وجیہہ لیڈر بول رہا ہے،
یہ بھارت ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، یہاں مسلمانوں کےخلاف ہتھیار اُٹھانے کی اپیل کرنے والے ہندوتوا دہشتگردوں کو منتری بنادیا جاتاہے لیکن مودی کےخلاف بولنے کی وجہ سے ایک مسلمان کو اسمبلی کے باہر کردیا جاتا ہے، یوگی کی غنڈہ گردی چیف منسٹری کے منصب سے بھی جاری ہے اور وہ اپنے مخالفین پر کم ظرفی سے زیادہ بدظرفی کے انداز میں وحشیانہ حملہ آور ہے، یہ ہے جمہوریت یہاں مخالف سیاستدان جیت بھی جائیں تو انہیں نااہل کرواکے باہر کردیا جاتاہے، جمھوریت کا ھندوتوا کرن ہوچکاہے، الگ سے اعلان نہیں ہونے والا !
اعظم خان اور ان کے گھرانے پر یوگی آدتیہ ناتھ اپنی تمام تر ریاستی مشنریوں سمیت ٹوٹ پڑا ہے اور جب سے وزارت اعلیٰ پر یہ شخص فائز ہوا ہے تب سے علانیہ اس گھرانے کو مٹانے کا اعلان کیا ہوا ہے، دیکھتے ہیں کہ اکھلیش یادو سماج وادی کے اس مسلم ستون کو بچانے کے لیے کتنی طاقت لگاتےہیں،
اعظم خان کی تعمیر کردہ محمد علی جوہر یونیورسٹی ایک ایسا کارنامہ ہے جو سنگھ کے یہاں ناقابلِ معافی جرم ہے آزاد بھارت میں ایسے کارنامے کی جسارت بھلا اور کتنے سیاستدانوں نے کی تھی جس کےذریعے مسلم قوم تعلیمی ترقیات کےذریعے خود کو مضبوط کرسکے،
ہم اس مشکل وقت میں اعظم خان، عبداللہ اعظم اور ان کے متعلقین سے اظہار ہمدردی کرتےہیں امید کرتےہیں کہ یہ مشکل ترین حالات ان کے لیے سبق آموز ہوں گے اور خوداحتسابی کا سبب بھی بنیں گے، سرکاری جبرواستبداد اور آزمائش کے اس وقت میں ہم امید کرتےہیں کہ یہ گھرانہ تدبّرِ قرآن اور تذکیر قرآن کے ذریعے خود کو طاقتور بنائے گا، خان صاحبان ! ہم آپ سب کےحق میں ہمت و استقامت کی دعا کرتےہیں _
ksamikhann@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں