src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> مسلم تعلیمی اداروں میں ڈانس کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویش ناک - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 29 جنوری، 2023

مسلم تعلیمی اداروں میں ڈانس کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویش ناک

 





مسلم تعلیمی اداروں میں ڈانس کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویش ناک





مفتی محمد سفیان ظفر قاسمی
(استاد مدرسہ حسینیہ تجوید القرآن دگھی گڈا جھارکھنڈ)



26 جنوری کو پورے ملک میں یوم جمہوریہ پوری شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے اس بار بھی منایا گیا، اسکول و کالج اور مدارس وغیرہ میں اس موقع پر تعلیمی، ثقافتی اور کھیل کود وغیرہ کا پروگرام  ہوتا ہے اس مرتبہ بھی ہوا مگر اس مرتبہ فیس بک کے توسط سے کچھ ایسے ویڈیوز پر میری نظر پڑی جن سے میرے ہوش اڑ گئے اور مجھے لگا کہ یہ لوگ قیامت جلد لانے کے لئے  محنت کر رہے ہیں اور کچھ نہیں. حالانکہ قیامت کی نشانیاں اس لیے بتائی گئی ہیں تاکہ ان سے بچنے کی کوشش کی جائے اور ان کو دور رکھنے کے لئے محنت کی جائے.

یوں تو اس موقع پر سرکاری اسکولوں اور غیروں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں جو پروگرام پیش کئے جاتے ہیں ان میں ڈانس کا ہونا لازمی ہوتا ہے بلکہ پروگراموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بچوں اور بچیوں کو بھاشن تقریر کویتا اور نظم وغیرہ نہیں کے برابر سکھائے جاتے ہیں، ان کی جگہ گانوں کی دھن پر اچھل کود کرنا ، جسموں کی نمائش کرنا اور جسموں کو تھرتھرانا سکھایا جاتا ہے اور بالکل یہی طریقہ اب ان پرائیویٹ اسکولوں کا بھی ہوتا جارہا ہے جو ہمارے مسلم دانشوروں کی ماتحتی میں چلتے ہیں. 

ہم سرکاری اداروں اور غیروں کے اسکولوں پر تو کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہمارے دائرہء اختیار سے باہر ہیں تاہم جو اسکول مسلم دانشوران کی ماتحتی میں چلتے ہیں وہاں کیا مجبوری ہے کہ وہ غیروں کی نقالی کریں، اور ڈانس کا اہتمام کریں اس سے تعلیم کو کیسے فروغ ملتا ہے؟  اور اس سے بچوں اور بچیوں کی کون سی تعلیمی لیاقت بڑھتی ہے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے، آخر ان کے گارجین کو یہ کیوں نہیں سمجھ میں آتا کہ تعلیم کے نام پر ان کے بچوں اور بچیوں کو انگریز بنانے کے لئے محنت کی جاتی ہے اور کچھ نہیں. تعلیم ڈانس کا نام نہیں ہے جس کے لیے مہینوں سے تیاریاں کروائی جاتی ہیں، ان کی جگہ مختلف موضوعات پر بھاشن، کویتا نظم اور معلوماتی اسپیچ وغیرہ بھی سکھائے جا سکتے ہیں مگر یہ سب نہیں کے برابر ہوتے ہیں اور پورا پروگرام صرف ڈانس کی نذر ہو جاتا ہے.

 افسوس تو اس پر ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم سماج میں رفتہ رفتہ اس کو مقبولیت بھی مل رہی ہے جس کی وجہ سے ایسی حرکت کرنے والوں کو حوصلہ مل رہا ہے ہمارے مسلم سماج میں اب ان برائیوں کے خلاف بولنے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ اب یہ آواز دبتی جا رہی ہے جو کہ مسلم سماج کے لئے اچھی علامت نہیں ہے، اس سے آنے والے دنوں میں تیزی سے مغربیت اور عریانیت پھیلنے کا خدشہ ہے.  

ایسے حالات میں وہ حضرات قابل مبارکباد ہیں جو ان چیزوں کو دیکھ کر دل سے کڑھتے ہیں اور اپنے ضمیر کی آواز کو لوگوں کے سامنے بھی رکھتے ہیں. ان میں بعض لوگ وہ بھی ہیں جو سب کے سامنے ایسی واہیات سے اپنی نفرت کا بر ملا اظہار کرتے ہیں، ادارہ کے ذمہ داروں کے سامنے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور ان کو ایسی حرکتوں سے باز آنے کے لئے مخلصانہ مشورہ بھی دیتے ہیں.  اللہ تعالیٰ ایسے حضرات کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر جاودانی نصیب فرمائے.

ہو سکتا ہے ایسے پرائیویٹ اسکول والوں کے پاس انگریزی تہذیب کو مسلم سماج میں جلد عام کرنے کے لئے بہت سارے دلائل ہوں اور یہ بھی دلیل ہو کہ جب ساری برائیاں ہو ہی رہی ہیں تو ڈانس والی بھی برائی بھی ہو جائے تو  کیا حرج ہے؟ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شریعت کا حکم ہے کہ نیکی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور برائی کو جہاں تک ممکن ہو اگر ختم نہیں کر سکتے تو اس کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں. اور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی گناہ چھپ کر ہوتا ہے اور کوئی گناہ علانیہ ہوتا ہے، جو چھپ کر ہوتا ہے اس میں خوف اور شرمندگی بھی شامل رہتی ہے جبکہ علانیہ گناہ صرف گناہ ہی نہیں بلکہ دعوت گناہ بھی ہے اس میں شرمندگی نہیں بلکہ فخر ہوتا ہے اور گناہ کو فخریہ پیش کرنا اور گناہ کی دعوت دینا یہ دونوں جرم عظیم ہے اس سے سماج خراب ہوتا ہے اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی. اور پھر گناہ کو کار خیر کی طرح پیش کرنا پھر بعض لوگوں کی طرف سے اس کی تعریف کرنا اور حمایت کرنا یہ سب گناہ در گناہ ہے. اللہ ان سب سے ہماری اور ہمارے مسلم معاشرے کی حفاظت فرمائے آمین.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages