شہر کے معذور حضرات کا کوئی بھی غمخوار نہیـــــں
مَیں آئینہ ہوں دکھاؤں گا داغ چہرے کے
جسے بُرا لگے وہ سامنے سے ہٹ جائیں
روزانہ ہم اخبارت اور سوشل میڈیا پر یہ خبریں دیکھتے ہیں کہ ہمارے لیڈر نے آج یہ تِیر مارا وہ تِیر مارا
ابھی گزشتہ دو دن پہلے یہ خبر پڑھنے میں آئی کہ سابق ایم ایل اے شیخ آصف صاحب نے ریٹائرڈ ٹیچرس کی پینشن کیلیے اعلَی لیڈران سے بات چیت کی
کیوں؟ شہر کے معذور لوگوں کے تعلق سے آپ کو معلوم نہیـــــں کہ کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں لیکن ان کی پینشن نہیـــــں ملتی
اس تعلق سے کبھی بھی آپ نے لَب کُشائی کیوں نہیـــــں کی
یہ کیا بلکہ ہمارے شہر کے کسی بھی تیس مارخاں لیڈر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس جانب توجہ دیں
اور یہ لوگ اپنے آپ کو ایسے ایسے القاب دے رکھے ہیں کہ شہنشاہوں اور راجاوں مہاراجاوں کی روحیں بھی شرماجائے
قائد و سالار
قائدِ نسل نَو (اور نہ جانے کیا کیا)
شیر دل خاتون
حبیبِ ملت
آہنی دیوار
غریبوں کا مسیحا
اور کام زیرو بٹے سنّاٹا
کم از کم اپنے خود ساختہ القابات کی تو لاج رکھ لو صاحبان
ستم ظریفی یہ کہ ہمارے شہر میں اتنے ضرورت مند نہیں جتنے ادارے کلبیں سوسائٹیاں اور فاؤنڈیشن ہیں جو اپنے آپ کو قوم کا خدمتگار اور مسیحا سمجھتے ہیں
ان میں سے کسی بھی مائی کے لال کو اتنی جرات نہیـــــں ہوئی کہ اعلی آفیسران اور کارپوریشن آفیسران کو گھیر سکیں
اس قوم کا کیا بھلا ہوگا جس قوم کے معذوروں اور بزرگوں کی کوئی خبر گیری نہ ہو
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ
سب نہیـــــں مگر اکثر وبیشتر معذوروں کا گزارا انہیں پینشن کی رقم سے ہوتاہے
لیکن ان باتوں کا اثر ہمارے لیڈران کو کہاں ہوگا
کیونکہ ان کی تجوریاں تو ٹکے واری کے پیسوں سے بھری پڑی ہے
کارپوریشن سے ہر سال بارہ ہزار روپیہ (فی مہینہ ایک ہزار) پینشن پاس ہوئی ہے لیکن گزشتہ سال صرف آٹھ ہزار روپیہ ہی دیا گیا
بالفرض اگر مان لیاجاے کہ شہر میں پانچ ہزار معذور افراد ہیں تو سال کا دو کروڑ روپیہ ہم معذوروں کا ہضم کرلیا کیا گیا
اور ان نکمے ناکارہ اور حرامخوروں کو ڈکار تک نہیـــــں آتی
اتنی ساری باتیں اگر کسی کُتّے کو کہی جائے تو سُننے کے بعد وہ بھی کپڑا پہن کر گھومنے لگے گا
دیکھتے ہیں ہمارے شہرکے کس لیڈر کو توفیق ملتی ہے کہ ہمارے تعلق سے اعلی لیڈران اور کارپوریشن آفیسران کی کنپٹی کا ناپ لیتے ہیں
✒️ سلیم بھائی رکشا والا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں