src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> ناول : بے_وفا_کون_ہے قسط : ایک - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 9 دسمبر، 2022

ناول : بے_وفا_کون_ہے قسط : ایک

 



ناول  :  بے_وفا_کون_ہے
قسط : ایک



حقیقی اور سچی کہانی ۔..۔

از قلم 🖊ام نییرین مہاراشٹر 


وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ
عین ممکن ہے جو چیز تمھیں پسند آرہی ہے وہ تمھارے حق میں بری ہو.!!
البقرہ:(216)



سمجھو نہ جنت یار 
اگر میں نے کہیں اور نکاح کیا تو وہ خود کشی کر لے گا 
جنت کی دوست منال اسے بار بار واصف کے لیے منانے کی کوشش کر رہی تھی 
جنت اور منال دونوں کالج فرینڈز تھی اور اب یونیورسٹی میں بھی دونوں ایک ساتھ پڑھتی تھی بس ڈیپارٹمنٹ الگ تھے لیکن دونوں ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کرتی تھی منال واصف سے بے انتہا محبت کرتی تھی اور بار بار جنت کو منا رہی تھی کیونکہ جنت کا ماننا بےحد ضروری تھا جنت ہی وہ واحد لڑکی تھی جو منال کی گھر سے بھاگنے میں مدد کر سکتی تھی 
بس کر دے منال 
تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟ 
تمہیں اپنے ماں باپ نظر نہیں آ رہے تمہیں اس کی خودکشی کی بے بنیاد دھمکیاں نظر آ رہی ہیں لیکن یہ نہیں دیکھ رہی تمہارا پورا خاندان ہر پل موت کی اذیت سے گزرے گا تمہارا باپ شرم کے مارے محلے کی مسجد تک نہیں جا سکے گا
جنت کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا 
 ہاں تو اگر اس باپ کو مجھ سے  اتنا پیار ہے تو میری شادی وہاں کیوں نہیں کر دیتا جہاں میں کہہ رہی ہوں 
منال نے جنت کے سامنے اپنی دلیل پیش کی 
جس کو جنت نے سر جھٹک کر اگنور کر دیا 
جنت وہ خود کشی کر لے گا پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش تو کر منال نے آنسو بہا تے ہوئے ایک اور جواز پیش کیا 
بس کردے یار اور اس کو بول جو کرنا ہے کر لے 
مرنا ہے مر جائے 
 ایسا کرو اس کو بولو کہ میری سہیلی سے بات کر لو کیونکہ مجھے ایسے دو سے چار کھمبوں کا پتا ہے جو دور سے ہی بندے کو کھینچ لیتے ہیں اور بندے کو مار کر ہی چھوڑتے ہیں
جنت نے بھی پورے جوش والے انداز میں اس کو حل بتایا تھا 
اس کو کیسے بول دو یار میں خود بھی تو نہیں رہ سکتی نہ اس کے بغیر 
منال نے التجائی نظریں ایک بار پھر جنت پر ڈال دی 
تم رہ لوں گی ان فیکٹ ہر بندہ ہی ہر کسی کے بغیر رہ سکتا ہے
ایک بات بتاؤ دنیا میں ہزاروں لوگ مرتے ہیں کیا ان کے ساتھ ان کے خاندان والے بھی مر جاتے ہیں کیا کبھی دیکھا ہے بچے کی موت پر ماں بھی ساتھ ہی مر گئی ہو کیونکہ ایک ماں سے زیادہ پیار کسی انسان کو کون کر سکتا ہے 

نہیں دیکھا نا 

تو بس ہر کوئی رہ سکتا ہے 
ہاں بس رہن سہن کے طریقے تھوڑے سے بدل جاتے ہیں لیکن وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جاتا ہے  اور تم فکر نہ کرو 

میں ہوں نہ 
میں تمہیں سنبھال لوں گی 
جنت نے لمبا سا جواز دے کر جان چھڑا نا چاہی 
جنت تم رہ لوگی طلال کے بغیر 
منال نے جنت کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ایک سوال کیا تھا 
اف اللہ شرم کرو منال میں اور  طلال کیوں دور رہیں گئے اور ویسے بھی وہ میرا  ایک اچھا دوست ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے 
جنت نے صفائی پیش کی 
منال نے بھی ایک ٹھنڈی آہ بھری جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ میں سب جانتی ہوں 
طلال جنت کا خالہ زاد تھا اور دونوں نے اپنا بچپن ایک ساتھ گزارا تھا دونوں ہر جگہ ایک ساتھ نظر آتے تھے کوئی بھی ان کو دیکھتا تو پہلی نظر میں ہی کہہ جاتا کہ دونوں میں محبت مثالی ہے 
دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے اور ایک دوسرے کی محبت کو  مانتے بھی نہیں تھے 
ایک بار پھر سوچ لو جنت کیونکہ وہ اپنی ماں کا لاڈلا بیٹا ہے اگر اس نے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کرلی تو 
منال  نے اسے منانے کی ایک آخری کوشش کرتے ہوئے کہا 
منال میری جان 
وہ کچھ نہیں کرے گا یہ بس آج کل کے لڑکوں کے چونچلے ہیں 
ایک کو چھوڑ کر دوسری اور دوسری سے تیسری لڑکیوں سے محبت ہوتی ہے ان کو 
اور آج کل محبت کچھ نہیں ہوتا سب جسم کے کھیل ہیں سب جسم کی خواہش میں مرے جا رہے ہوتے ہیں 
جنت نے اس دفعہ سمجھانے میں نرمی برتی تھی 
تم کیسے کہہ سکتی ہوں یہ جسم کی خواہش ہے
ہر لڑکا ایک جیسا نہیں ہوتا 
اس دفعہ منال کے  الفاظ کے ساتھ آنسو بھی نکلے تھے 
میں کیوں نہیں کہہ سکتی آخر اپنے بچپن میں یہی کچھ تو دیکھا سہا ہے جب جنسی خواہش کا دور دور تک لفظ بھی نہیں سنا تھا تب مجھے اس کا عمل ازبر کروا دیا گیا تھا 
ایک مرد انسان نہیں حیوان ہوتا ہے درندہ ہے جس کو جسم کے ذائقوں کے علاوہ کچھ نہیں پتا گویا جنت آج پھٹ پڑی تھی 
منال اور جنت پانچ سال سے ایک ساتھ  پڑھ رہی تھی لیکن جنت کا یہ روپ منال نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا 
چھوٹی سی بات پر گھنٹوں ہنسنے والی لڑکی آج کیا کچھ بولی جارہی تھی 
منال اپنے کانوں پر یقین نہیں کر پا رہی تھی
اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا جنت جیسی لڑکی کبھی سیریس ہو سکتی ہیں وہ لوگ تو جنت پر رشق کرتی تھی کہ وہ اتنی آسائشوں میں ہے اتنی ہنستی ہنساتی ہے لیکن وہ پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی کہ جنت جیسی لڑکی کے دل میں اتنا غبار ہے یہ لڑکی اپنے ماضی میں کچھ سہ کر آئی ہے 
منال جنت کی لڑکوں کے لیے نفرت تو جانتی تھی لیکن آج اتنے زہرخند الفاظ پہلی بار سن رہی تھی 
منال اپنے خیالوں سے نکل کر جنت کو تسلی دینے کے لیے ‏ مڑی 
 تو دیکھا کہ کیمسٹری  لیب میں دور دور تک کسی آدم زاد کا نشان تک نہ تھا اسکے جنت گھر آ گئی کچھ کام کیا اور رات کو کافی لیٹ سوئی ۔

صافہ کلی اتےٹنگیا کرو 
صافہ کلی اتےٹنگیا کرو 

ماں پیو شک کر دے ساڈی گلی وچوں نہ لنگیا کرو 

صافہ کلی اتےٹنگا گے 
صافہ کلی اتےٹنگا گے 

گلی تیرے پیو دی نی 
آنکھ مار کے لنگاں گے 

ایک سے بڑھ کر ایک ٹپہ محفل سے نکل نکل کر آ رہا تھا کہ اچانک اسے ایسا لگا جیسے اس پر ایٹم بم گرا دیا گیا ہو اور ساlتھ میں اماں کی چیختی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی وہ ہر بڑا کر اٹھ بیٹھی 
اے جنت اٹھ جا 
کب تک سوتی رہے گی تیری گاڑی آنے والی ہے اللہ میں کیا کروں اپنی گندی اولاد کا , 
اٹھ جا سات بج کر دس منٹ ہو چکے ہیں اماں اس کو للکارتے ہوئے کھانا بنانے کی تیاری میں مشغول تھی فاطمہ کی ہیپی مارننگ اسی ایک قوالی کے ساتھ ہوتی تھی 
اب اماں باقاعدہ کمرے تک پہنچ ائی تھی 
جنت اٹھ جا سات بج گئے ہیں پھر بھاگو گی اپنی چیزیں سمیٹتی ہوئی اور ہر دن کی طرح کوئی نہ کوئی چیز گھر ہی بھول جاؤں گی 
کیا ہے ماں ابھی چھ بھی نہیں بجے ہوں گے آپ کا ٹائم ہمیشہ ایک گھنٹہ آگے ہوتا ہے اوپر سے سارا خواب توڑ دیا میرا  ہائے کتنا مزا آ رہا تھا  میری مہندی کی رسم میں 
وہ کمبل کے اندر منہ کرکے بڑبڑائی اور پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگی 
اچھا ہو جؤ آج تمہارا گاڑی والا تمہیں چھوڑ کر چلا جائے 
اماں بھی پھر اماں تھی کہاں اتنی جلدی جان چھوڑتی 
اف اللہ
اماں آپ ماں ہے یا بنگالی بابا ہر وقت الٹی دعائیں دیتی رہتی ہیں اور رہی بات وین کی تو شوق سے چھوڑ کر جائے میرا طلال ہے نہ میری ایک کال کی دیر ہے وہ مجھے پورا پک اینڈ ڈراپ دے گا 
طلال کے ذکر پر ہی جنت کا چہرہ کھل جا یا کرتا تھا اتنا تو مان تھا اس کو
 اپنے طلال پر 
آ جائیں اماں آپ بھی تھک گئی ہو گی 
یہ کہتے ہوئے جنت نے اماں کو بھی اپنے ساتھ بستر پر کھینچ لیا 
جنت اٹھ جا
اس سے پہلے میں جوتا نکال لوں آج تیرے بابا بھی گھر نہیں ہے تو تمہیں میرے ہاتھ سے چھڑانے بھی کوئی نہیں آئے گا
اماں دھمکی دیتے ہوئے واقعی اپنی جوتی نکال چکی تھی اور اب ہوا میں لہرا کر آخری دھمکی جاری کر رہی تھی جو واقعی جنت پر اثر بھی کر گئی اور وہ کمبل پھینک کر باقاعدہ اماں کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی 
اماں 
میری پیاری اماں 
‏baba ki rani 
دیکھ میری آنکھوں میں پانی 
نہ کر یہ نادانی 
اور چھوڑ دے جوتا پلیز 
دیکھو میں اٹھ گئی ہو نہ اور آج تو سارا گھر صاف کرکے جاونگی وہ مکھن لگاتے ہوئے التجا کر رہی تھی 
کیونکہ اب اماں واقعی غصے میں آ چکی تھی 
اماں کے کمرے سے جاتے ہی جنت کی نظر کمرے میں 
لگی وال کلاک سے ٹکرائی جس میں ابھی چھ بھی نہیں بجے تھے 
مطلب اس کا اندازہ ماں کے بارے میں بالکل صحیح تھا 
ابھی وین کے آنے میں پنتالیس منٹ باقی تھے آدھے گھنٹے میں اس نے کمرے کی صفائی کی اور پھر یونی کی تیاری میں لگ گئی 
بال وہ رات کو برش کر کے کھول کے سوتی تھی وہ ایک پرکشش اور پر اعتماد شخصیت کی مالک تھی  اس کی آنکھوں میں ہر وقت کوئی نہ کوئی نئی شرارت کی جھلک صاف نظر آتی تھی جو ان آنکھوں کو مزید خوبصورت بنا دیتی تھی 
گال پر تل , اور اس کے نیچے پڑتا ایک  خوبصورت سا ڈیمپل اس کی خوبصورتی کو مزید نکھارتا  اس کی دوست اس کو ڈمپل کوئین یا    لو گرو کہہ کر  چھیڑتی تھی کیونکہ آج کل وہ ایک انجانی محبت کے سحر میں سختی سے جکڑی جا رہی تھی اس کا  رنگ اتنا سفید نہیں تھا مگر اتنی کشش تھی کہ ہر کوئی کھچا چلا آتا


وہ جلدی سے تیار ہو کر بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکل گئی اور ناشتہ تو عموما اس کی قسمت میں صرف  اتوار کو ہی ہوتا تھا ناشتہ نہ کرنے کی اس کو اتنی فکر نہیں تھی وہ تو بس یہ سوچ رہی تھی ۔۔ 

جاری_ہے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages