ازدواجی زندگی۔خوبیوں کو دیکھیں نہ کہ خامیوں کو۔قسط نمبر٢
قاری مختار احمد ملی ابن عبدالعزیز جامعتہ الصالحین فارمیسی نگر مالیگاؤں
۔۔۔۔۔۔جب آدمی کو اپنا شریک حیات نا پسند ہو اور وہ صبر کا طریقہ اختیار نہ کرکے علحدگی کا فیصلہ کرے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس علحدگی کو حق بجانب ثابت کرنے کیلئے وہ دوسرے فریق کی خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے وہ اس پر جھوٹے الزام لگاتا ہے وہ اس کے خلاف ظالمانہ کاروائی کرتا ہے تاکہ وہ گھبراکر خود ہی بھاگ جائے اسی طرح جب آدمی کسی سے تعلق توڑتا ہے تو ضد میں آکر فریق ثانی کو دی ہوئی چیزیں اس سے واپس چھیننے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ سب عہد کی خلاف ورزی ہے اور عہد اللہ کی نظر میں ایسی مقدس چیز ہے کہ اگر وہ غیر تحریری شکل میں ہو تب بھی اسکی پابندی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ تحریری عہدکی۔,,اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے گذر بسر کرو اگر وہ تم کو نا پسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ ہومگر اللہ نے اس کے اندر تمہارے لئے کوئی بڑی بھلائی رکھ دی ہو,, یہ فقرہ یہاں اگرچہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں آیا ہے مگر اس کے اندر ایک عمومی تعلیم بھی ہے قرآن کا یہ عام اسلوب ہے کہ ایک متعین معاملہ کا حکم بتاتے ہوئے اس کے درمیان ایک ایسی کلی ہدایت دے دیتا ہے جس کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہو دنیا کی زندگی میں انسان کے لئے مل جل کر رہنا ناگزیر ہے کوئی شخص بالکل الگ تھلگ زندگی گزار نہیں سکتا اب چونکہ طبیعتیں الگ الگ ہیں اس لئے جب بھی کچھ لوگ مل کر رہیں گے ان کے درمیان لازما شکایات پیدا ہوں گی ایسی حالت میں قابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ شکایتوں کو نظر انداز کیا جائے اور خوشاسلوبی کے ساتھ تعلق نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنے ساتھی کی ایک خرابی آدمی کے سامنے آتی ہے اور وہ بس اسی کولے کر اپنے ساتھی سے روٹھ جاتا ہے حالانکہ اگر وہ سوچے تووہ پائیگا کہ ہر ناموافق صورت حال میں کوئی خیر کا پہلو موجود ہوتا ہے کبھی کسی واقعہ میں آدمی کیلئے صبر کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے کبھی اسکے اندر اللہ کی طرف رجوع اور انابت کی غذا ہوتی ہے کبھی ایک چھوٹی سی تکلیف میں کوئی بڑا سبق چھپا ہوا ہوتا ہے۔9موغیرہ۔(جاری)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں