بچیوں کو 'سانپوں' سے بچانے والا جذباتی بلاک والدین کیسے بنائیں؟ سیرت سے چند اصول
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول ﷺ لوگوں کے درمیان نماز ادا کررہے تھے ۔۔۔۔۔اس حالت میں کہ حضرت امامہ بنت زینب کو اٹھائے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
اب تصور کریں کہ آپ مسجد نبویﷺ میں داخل ہوتے ہیں، اور ایک بچی سب سے پہلی صف میں موجود ہے۔۔۔۔تو یہ کیا تاثردے گا؟ یہی کہ بچیاں خالص ہوتی ہیں، قابل احترام ہوتی ہیں،
حالانکہ رسولﷺ امامہ رضی اللہ عنہا کو کسی اورکو بھی پکڑا سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ ہر وقت اور ہر حالت میں رحمت کا دریا تھے۔ اب یہی امامہ اگر بڑی ہوتی ہیں تو کیا وہ اپنی بیٹی کو یوں ہی نہیں اٹھائیں گی۔۔۔۔بچیوں سے پوزیٹو ایسوسی ایشن کا اثر اتنا اہم اور حیرت انگیز ہوتا ہے کہ یہ اگلی کئی نسلوں تک چلتا چلا جاتا ہے ۔
بچیوں سے کھیلنا، پر مزاح بات کرنا، ہنسنا ۔۔۔۔۔۔۔ایسے معاشرے میں جہاں بچیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا۔۔۔۔
لڑکیوں اور بچیوں سے رسولﷺکی محبت کی لاجواب مثال ہی تو ہے۔۔۔۔۔
ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا آپ ﷺ کے کمرے میں داخل ہوئیں تو آپ ﷺ ان کے لیے کھڑے ہو گئے(کوئی بات نہیں، بلکہ عملی مثال کہ بچیوں کی کیا اہمیت ہے اور کیسے انہیں ویلیو دینی ہے) اور ماتھے پر بوسہ دیا اور انہیں اپنے دائیں، بائیں نہیں بلکہ اپنی جگہ پر بٹھایا۔
کیا شفقت، رحمت اور محبت ہے ۔۔۔۔۔جذباتی تعلق کی نشانی ہے۔
دراصل وہ ایک لڑکی کی جذباتی ضرورت پورا کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے جذباتی خلا ء کی وجہ سے کسی اور کا شکار نہ بن جائے۔۔۔۔۔کسی ایسے فرد کا جو اس کے ساتھ اسکول یا کالج میں پڑھتا ہے اور یہ لڑکی جب گھر سے بے عزت اور پٹ کر آتی ہے تو وہ لڑکا(چاہے دنیا کی سب سے بری شکل اور عقل والا ہی کیوں نہ ہو) اس لڑکی کو کہتا ہے کہ تم تو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔۔یوں اس کے جذباتی خلاء کو پر کر کے اس کو شکار کے لیے تیار کرتا ہے ۔۔۔۔
اس سے قبل کوئی اورکہے ،آپ ہر وہ بات اپنی بیٹی سے کہیں جو وہ سننا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اس کی تعریف کریں، گلے لگائیں،گھمانے لے جائیں، محبت سے اس کے دل کو اتنا بھر دیں کہ وہ کسی 'سانپ' کا شکارنہ ہو سکے۔
حضرت ام خالد رضی اللہ عنھا جب ننھی منی سی تھیں تو ایک دفعہ اپنے والد کے ساتھ رسول سے ملاقات کے لیے آئیں۔۔۔۔۔چھوٹی سی تو تھیں تو تھوڑی ہی دیر میں رسولﷺ کی دلکش شخصیت سے اتنی ہل گئیں کہ ان کے مہر نبوت سے کھیلنی لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ان کے والد (میرے اور آپ کی طرح یہ دکھانے کے لیے کہ لڑکی بڑی اچھی، ادب و آداب والی ہے) منع کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تو رسولﷺ نے کہا اسے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔
Let her tear and wear….
یعنی اسے کھیلنے اور تھوڑا بہت نقصان پہنچانے دو، تاکہ وہ تجرباتی لرننگ کر سکے۔۔۔۔۔۔۔
سوچیں بچیوں کے لیے رسولﷺ کس حد تک کھیلنے کی گنجائش دہے رہے ہوں گے۔
والدین کے لیے قابل عمل نکات کیا ہیں ؟
بچیوں سے کھیلیں۔۔۔
پر مزاح بات کریں۔۔۔۔
ہنسے اور ہنسائیں، ان سے مثبت ایسوسی ایشن بنائیں تاکہ اگلی نسلیں بھی اللہ اور رسولﷺ والی ہوں۔۔۔۔
بچیوں کی تعریف کریں۔۔۔۔۔۔گلے لگائیں۔۔۔۔۔۔۔۔
گھمانے لے جائیں۔۔۔۔محبت سے ان کے دل بھر دیں (اگر 'سانپوں' سے بچانا ہے)،
تجربات کرنے، کچھ توڑپھوڑ کرنے دیں اور نظر انداز کریں(بجائے غصے ہونے، چلانے، انہیں ہروقت اچھا بنانے، ثابت کرنے کے)
ننھےصحابہ۔۔۔۔۔۔تربیت نبیﷺ کے سائے میں
فرحان ظفر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں