نوعمری اور عادات و اطوار کی تبدیلیاں
تحریر: ڈاکٹرعبد الرحیم , ریاض سعودی عربیہ
بچوں میں عمر کے مراحل کے مطابق ان کی تربیت کے طریقے بھی مختلف ہوا کرتے ہیں۔ تمام ریسرچ اور سرویز کے بموجب سب سے اہم مرحلہ تیرہ سے انیس سال ( Teenage ) یعنی نوعمری کا ہوتا ہے۔ اس نوعمری میں بھی چودہ سے سترہ سال کی عمر سب سے زیادہ حساس ہوا کرتی ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچہ بچپنے سے نکل کر جوانی میں داخل ہورہا ہوتا ہے، اس کے جسم میں طبعی طور پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو اسکی نفسیات اور اسکے عادات و اطوار کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔ کم علمی کی بنا پر اکثر والدین کو لگتا ہے کہ ان کا بچہ بگڑ رہا ہے اور اس میں غیر طبعی عادات و اطوار پیدا ہوگئ ہیں، اور نتیجتا وہ غیر درست انداز میں بچے کو ہینڈل کرنا شروع کردیتے ہیں جس کے ردعمل میں بچہ اس قدر برباد ہوجاتا ہے کہ تاعمر اس کی اصلاح مشکل ہوجاتی ہے۔
میں خود ایک پندرہ سالہ بچے کا باپ ہوں اور ان طبعی تبدیلیوں کو دیکھ رہا ہوں۔ باپ ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ ایک طبیب بھی ہوں اسلئے ان طبعی تبدیلیوں کا نہ صرف مجھے علم ہے بالکہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ اس نازک عمر میں بہت ایجابی طریقے سے بچے کی پرورش کرسکوں۔ ۔۔۔۔ چونکہ اکثر اس موضوع پر میں بیگم کے ساتھ بچے سے بھی بات کرتا ہوں، اسلئے آج خیال آیا کہ اس پر کچھ لکھنا بھی چاہئے، شاید کچھ والدین کے لئے کارآمد ثابت ہوجائے۔
نوعمری بالخصوص مذکورہ عمر میں بچے کے جسم میں ہارمون، بالخصوص سیکس ہارمون (Estrogen, Progesterone, Testosterone ) میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ انکے نتیجے میں جہاں بچے کی جسمانی ساخت میں تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں وہیں اس کی روز مرہ کی حرکات اور نفسیات میں بھی خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ جسمانی تبدیلیوں کا ہم سبھی کو علم ہے، البتہ دیگر کو ہم کچھ یوں سمجھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇
1۔ Emotional Change اس دوران ہارمونل تبدیلیوں کے چلتے بچے کے ایموشنز پہلے کی بہ نسبت زیادہ اسڑانگ ہوجاتے ہیں۔ وہ والدین کی بار بار ڈانٹ کو پہلے جیسا نہیں قبول کرپاتا ہے، والدین کی بار بار کی روک ٹوک جسے وہ پہلے بنا دل و دماغ پے لئے اگنور کردیا کرتا تھا اب نہیں کرپاتا بالکہ اسے وہ اپنے لئے خیر کے بجائے برا بھی سمجھنے لگتا ہے۔ اب وہ نہیں پسند کرتا کہ راہ چلتے اسے اسکے بڑے سمجھاتے اور ٹوکٹے پھریں کہ بیٹا ایسا مت کرو، یوں کرو، یہاں مت جاو، یہ مت پہنو، ایسے مت بات کرو وغیرہ وغیرہ۔ بالکہ اس سے بھی آگے اسے خود شناسی Self Identity کی فکر لاحق ہوجاتی ہے، وہ اپنے فیصلے لینا چاہتا ہے، والدین کے بجائے اپنی پسند کے کپڑے پہننا چاہتا ہے، اپنی مرضی کے ہیئر اسٹائل و جوتے چاہتا ہے، اپنی پسند کے دوست بنانا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ صرف یہی نہیں بالکہ اب وہ والدین اور اپنے بڑوں کی خامیوں پر بھی روک ٹوک کرنا پسند کرتا ہے، اسے تکلیف ہوتی ہے اگر اسکے اپنے اس کے حساب سے نہ رہیں۔ اسے اپنے علاوہ اپنے لوگوں کی بھی فکر ہونے لگتی ہے کہ وہ ایسا کریں اور ایسے رہیں وغیرہ۔
2۔ Mood Swing / Change انہیں تبدیلیوں کے نتیجہ میں بچے کا موڈ بہت تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔ اس کا ردعمل پہلے سے زیادہ تیز اور اسٹرانگ ہوجاتا ہے۔ بات بات پر چڑ چڑاپن دکھانے لگتا ہے، غصہ نسبتا زیادہ آتا ہے۔ اس عمر میں موڈ اس تیزی سے بدل سکتا ہے کہ پل بھر میں بچہ اوور کانفیڈینس تو دوسرے ہی پل احساس کمتری کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ نیند کی زیادتی بھی ہوجاتی ہے۔
اگر بچے میں جسمانی کے ساتھ ساتھ ایموشن و موڈ کی تبدیلیاں مذکورہ حد تک ہیں، تو نہ صرف انہیں طبعی مانا جائے بالکہ ان پر بیجا پریشان نہ ہوکر اس وقت بہت ہی مخصوص انداز میں بچے کی تربیت و پرورش کا کام انجام دیا جائے۔ بڑوں اور بالخصوص والدین کو سمجھنا ہوگا کہ اب اس عمر میں بھی وہی طریقہ اپنانے سے کام نہیں بننے والا جو دس بارہ سال کی عمر تک بچے کی تربیت کے لئے اپنایا گیا تھا، بالکہ اسے کافی حد تک بدلنا ہوگا۔ مختصرا ہمیں درج ذیل کا اہتمام کرنا ہوگا۔
1۔ غیر ضروری ردعمل: جب بھی بچہ اس عمر میں کوئ غلطی یا حرکت کرے تو والدین کو چاہئے کہ فوری طور پر طیش میں آکر غیر ضروری ردعمل کا مظاہرہ نہ کریں۔ بالکہ جب بچہ درست موڈ اور ایموشن میں ہو تو بہتر انداز میں اسے اس کی غلطی کا احساس مناسب وقت پر دلایا جائے۔
2۔ نصیحت: بچے کو نصیحت کبھی بھی اسکے دوستوں، بھائ بہنوں اور بالخصوص چھوٹوں کے سامنے نہ کریں، بالکہ اکیلے میں اسے اچھے انداز میں بتایا جائے۔ کیونکہ وہ اس عمر میں داخل ہوچکا ہے کہ جہاں اسے اس کی شناخت اور اس کا نفس اسے بہت عزیز ہوچکا ہے۔
3۔ اسباب: بچوں کی اس عمر میں غلطیوں پر فوری بھڑکنے کے بجائے والدین کو اطمینان اور شائستگی اپنانے چاہئے، ردعمل سے قبل اسباب کا پتہ لگانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اسی کے مطابق حل نکالا جاسکے۔
4۔ وقت: تمام تر مصروفیات کے باوجود بچوں کو کوالٹی ٹائم دینا بیحد لازمی ہے۔ طلب معاش کی خاطر اگر والدین میں سے کوئ دور ہو تو بھی ضروری ہے کہ الیکٹرانک ذرائع کا استعمال کرکے بچوں سے جڑا رہے۔ ان سے اچھی باتوں کے ساتھ لطائف و ہیومر بھی شیئر کیا جائے۔ گفتگو تکلف سے پرے بالکل دوستانہ ہو۔ عادت ڈالیں کہ والدین کم بولیں اور بچوں سے زیادہ سنیں۔ ان کو اسقدر فری بنائیں کہ وہ اپنے عزائم، اپنے سپنے اور اپنے دل کی باتیں حتی کہ سرزد ہوچکی غلطیاں بھی آپ سے شیئر کرسکیں۔
5۔ حوصلہ افزائ: بچے کو اس عمر میں خود کی تلاش اور خود کو اچھا کہلوانے کی بڑی چاہ ہوتی ہے، اسلئے جب بھی وہ کوئ معمولی سا بھی اچھا کام کرے تو اس پر اسے شاباشی دی جائے اور ہر ممکن طریقے سے اسکی حوصلہ افزائ کی جائے۔
6۔ تعامل: بچے کے ساتھ اس عمر میں والدین کا تعامل سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کوشش ہو کہ کھانا ساتھ کھائیں، نمازوں میں ساتھ ہوں، اپنے ساتھ رشتے داروں یا دوسرے مقامات پر لے جائیں، دوسروں سے بہتر الفاظ میں تعارف کرائیں۔ عادت ڈالیں کہ بچہ آپ کو دیکھ کر اپنی روٹین سیٹ کرے مثلا صبح آپ کو جلدی اٹھتا دیکھے، موبائل کا غیر ضروری استعمال کم سے کم تر ہو، آپ کو بہتر کپڑوں میں دیکھے، آپ کا اپنا تعامل دوسروں کے ساتھ بہتر ہو۔ نہ بھولنا چاہیے کہ ہمارا تعامل اپنے بچے کے ساتھ خواہ کتنا بھی مثبت ہو لیکن اگر دوسروں کے ساتھ مثبت نہیں تو بچے پر کبھی اثر انداز نہ ہوگا۔
7۔ اعتماد: بچوں کو باتوں اور اعمال سے یہ احساس دلایا جائے کہ آپ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ مثلا انہیں کوئ کام سونپ کر کہیں کہ مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا اس کام کو اچھے سے کریگا، گھریلو سامان لانے بھیجا کریں، اسکے چھوٹے بھائ بہنوں کو پڑھانے کی ذمہ داری اسے دیں۔ کبھی آوٹنگ کا پروگرام ہو تو اس سے کہیں کہ بیٹا آپ طے کرو کہ اس سنڈے کہاں جایا جائے، کون سے ہوٹل میں کھایا جائے۔۔۔۔۔ اگر اس کی رائے غیر مناسب بھی ہو تو بڑے ہی پیار محبت سے اسے بدیل بتائیں۔ کسی کے ذریعہ بچے کی کسی غلط عادت کی خبر بھی ملے تو اسے اعتماد میں لیکر اس پر گفتگو کریں۔
8۔ سرزنش: اگر اسکی طرف سے کوئ غلطی سرزد ہوجائے تو بجائے اس پر لعن و طعن کے اسے محبت سے سمجھا ئیں کہ آئیندہ اعادہ نہ ہو۔ ماضی میں سرزد اسکی غلطی کا تذکرہ آئے دن گفتگو کے دوران بالکل نہ کیا جائے۔
9۔ امیدیں: والدین اپنے بچوں سے وابستہ امیدیں ضرور انکے سامنے رکھیں، پر انہیں ان پر تھوپنے کی بالکل کوشش نہ کریں۔ بالکہ دیکھیں کہ بچے کی دلچسپی اور صلاحیت کس سمت میں ہے اور اگر وہ غیر مناسب نہ ہو تو اسمیں اس کا حتی الامکان تعاون کریں۔
10۔ حدود: بچوں کی نگہداشت بیحد ضروری ہے البتہ انکی بیجا نگرانی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ انکے اسکول، روٹین، اخراجات، سوشل سرکل کی ہم خبر رکھیں البتہ ہر معمولی معمولی بات پر استمرار کے ساتھ ان سے پوچھ گچھ کرتے رہنا اور ان کی روزمرہ کی حرکات و سکنات کو دوربین والی آنکھوں سے مونیٹر کرتے رہنا بیحد نقصاندہ ہے۔ اس سے بچے میں چڑ چڑا پن اور فرسٹریشن میں سوائے اضافے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
11۔ دینی ماحول: اس عمر میں بیحد ضروری ہے کہ روز مرہ کے تمام معمولات میں عملی طور پر دینداری کا والدین مظاہرہ کریں اور بچوں میں دینی شعائر سے دلچسپی کی کوشش کی جائے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ دین ہی ایسی واحد حد ہے جو انہیں تمام وسائل کی فراہمی کے باوجود برائیوں کی طرف جانے سے روک سکتی ہے۔ بچے گرچہ دنیاوی تعلیم میں ہوں مگر والدین پر لازم ہے کہ روزمرہ کی گفتگو میں دینی شخصیات و تاریخ و شعائر کا وقتا فوقتا تذکرہ ہوتا رہے۔
یہ چند اثباتی طریقے ہیں جن سے ہم نوعمری میں بچوں کی تربیت کو بہتر بناسکتے ہیں۔ ایک بار پھر نہ بھولنا چاہیے کہ اسی عمر میں سب سے زیادہ بچے اسکول ڈراپ آوٹ کرتے ہیں اور نشے و جرائم جیسی بری عادتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت ساری وجوہات میں سے اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نازک عمر میں ہم بچوں کو نہ صحیح سے سمجھ پاتے ہیں اور نہ انکی ٹھیک سے تربیت کر پاتے ہیں۔
ہاں، درج بالا طبعی تبدیلوں کے علاوہ بعض بچوں میں شدید قسم کے عوارض اس عمر میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلا شرارت سے بڑھ کر جرائم کی حد تک پہونچ جانا، نشے وغیرہ کی لت لگ جانا۔ چڑ چڑا پن اور معمولی ردعمل جیسی چیزوں کے بجائے تشدد و وائلینس کے دائرے میں داخل ہوجانا، اور اس جیسے بہت سے دیگر عوارضات۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں پیار محبت کے ساتھ ساتھ سختی، کاونسلینگ سے بھی آگے کئ دیگر اصلاحی ہتھکنڈوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں