src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> بھیونڈی کے انصار نگر میں ہوئی خونی واردات: ظالم شوہر نے جبراً گھر میں گھس کر بیوی پر کیا قاتلانہ حملہ. شوہر گرفتار - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

منگل، 2 اگست، 2022

بھیونڈی کے انصار نگر میں ہوئی خونی واردات: ظالم شوہر نے جبراً گھر میں گھس کر بیوی پر کیا قاتلانہ حملہ. شوہر گرفتار

 


بھیونڈی کے انصار نگر میں ہوئی خونی واردات: 



ظالم شوہر نے جبراً گھر میں گھس کر بیوی پر کیا قاتلانہ حملہ.  شوہر گرفتار 



بھیونڈی (کرائم اسٹوری) شانتی نگر پولس اسٹیشن کی حد میں آج علی الصبح ایک خونی واردات پیش آئی.  بتادیں کہ ایک ظالم شوہر نے اپنی ہی بیوی پر  تیز دھار ہتھیار  سے قاتلانہ حملہ کیا.  اس ضمن میں ملی تازہ تفصیلات کے مطابق غیبی نگر میں واقع انصار نگر,  محمدیہ کرانہ اسٹور کے پاس کی ساکنہ نور جہاں کا اس کے شوہر سے تنازعہ چل رہا تھا.  واضح رہے کہ نورجہاں کے تین بچے ہیں. دو لڑکے اور ایک لڑکی. تینوں بچے نابالغ ہیں. جس وقت یہ خونی واردات پیش آئی دونوں بیٹے اسکول گئے ہوئے تھے.  گھر میں نور جہاں اور اس کی بیٹی ہی تھے.  لڑکی سوریی تھی.  ساڑھے 7 سے 8 بجے کے درمیانی وقت ملزم ریاض الدین نے بلڈنگ کے تمام فلیٹس کو باہر سے کنڈی لگائی اور جبراً نورجہاں کے گھر میں داخل ہوکر مارپیٹ کرنے لگا.  نورجہاں کی چیخ پکار سے گھر میں موجود اس کی بیٹی کی آنکھ کھل گئی . لڑکی نے جب دیکھا کہ اس کے والد اس کی والدہ کو مار رہے ہیں تو اس نے گھر کی کھڑکی سے نیچے آواز دے کر  باہر بیٹھے ہوئے  شخص کو بلایا تب تک ریاض الدین جس کے سر پر خون سوار تھا تیز دھار ہتھیار سے پے درپے کئی وار کرکے نورجہاں کو آدھ مرا کردیا. اس درمیان وہ 2 افراد گھر کے اندر داخل ہوئے اور ایک شخص نے ریاض الدین کو دھر دبوچا اور اس خونی واردات کی اطلاع شانتی نگر پولس کو دی.  پولس نے  موقعۂ واردات پر پہنچ کر ملزم ریاض الدین کو حراست میں لیا اور خون میں لت پت زخمی نورجہاں کو طبی امداد بہم پہنچانے کی غرض سے شہر کے اندرا گاندھی میموریل ہاسپٹل لے گئے مگر نورجہاں کی سیریس کنڈیشن کو دیکھتے ہو اسے کلوا ہاسپٹل ریفر کیا گیا. نورجہاں کے بڑے بیٹے نے بتایا کہ ان کے والد ان کی کفالت نہیں کرتے تھے اور جب یہ لوگ الگ رہنے لگے تو اکثر بیشتر گھر میں گھس کر اس کی والدہ کے ساتھ مار پیٹ کرتے تھے.  کئی بار تو شراب کے نشے مس دھت ہوکر گھر میں زبردستی گھس کر مار پیٹ کرچکے ہیں. 


بھیونڈی کی یہ خونی واردات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں. اسلام میں شوہر کو گھر کا کفیل بنایا گیا ہے اور عورت کو گھر کی چہار دیواری میں قید کرکے اس کے کندھوں پر گھریلو ذمے داریاں ڈالی ہیں مگر دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ مرد جس طرح سے اپنی ذمے داری سے پہلو تہی برت رہا ہے.  شادی کرکے گھر تو بسا لیتا ہے مگر اکیسویں صدی کی ایجاد موبائل فون کی رنگین دنیا میں کھو کر غیر محرم عورتوں کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہورہا ہے.  یہ خواتین جو کہ سیلف میڈ ہوتی ہیں. ان کی پرکشش تنخواہ کے زیر اثر وہ اپنے بیوی بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے.  اب ایسے میں اگر بیوی کے قدم بہک گئے تو اس کا ذمے دار کون؟ علاوہ ازیں اگر بیوی اب نامساعد حالات کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرتی ہیں تو یہ بھی شوہر کی جھوٹی غیرت گوارہ نہیں کرتی اور پھر شروع  ہوتا ہے گھریلو تشدد کا سلسلہ جو کہ اکثر خونی واردات پر اختتام پذیر ہوتا ہے ہا تو بیوی کا قتل کردیا جاتا ہے یا حالات سے ہار کر بیوی موت کو گلے لگانا پسند کرتی ہیں.  ایسے میں رہ گئے بچے تو وہ بے چارے اپنی ماں کو کھوچکے ہیں اور اس کی موت الزام میں ان کا باپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں.  تب یہ بچے کیا تاثر لے کر بڑے ہوگے.  ظاہر ہے ایسے بچے ہی کرائم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور اپنے ساتھ ہوئی ہر انصافی کا بدلہ وہ الگ الگ کرائم کرکے لیتے ہیں . 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages