جیمز ویب دوربین کی پہلی رنگین تصویر
گذشتہ سال دسمبر میں جب 10 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے تیار کی جانے والی جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو خلا میں روانہ کیا گیا تو امید کی جا رہی تھی کہ اب خلا میں کائنات کے نئے راز افشاں ہو سکیں گے۔
اس خلائی دوربین، جسے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسی منصوبہ قرار دیا گا، کی مدد سے حاصل ہونے والی پہلی رنگین تصویر جاری کی جا چکی ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے اس نے مایوس نہیں کیا۔
اس تصویر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کائنات کا اب تک کا سب سے گہرا اور تفصیلی انفراریڈ نظارہ پیش کرتی ہے جس میں کہکشاؤں کی ایسی روشنی دکھائی دیتی ہے جس نے اربوں سال کی مسافت طے کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن بھی یہ تصویر وائٹ ہاوس میں ایک بریفنگ کے دوران دیکھ چکے ہیں۔
ناسا کی جانب سے منگل کو عالمی طور پر جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے حاصل ہونے والی مذید تصاویر جاری کی جائیں گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس موقع پر کہا کہ’یہ تصاویر دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ امریکہ اب بھی بڑے کام کر سکتا ہے اور امریکی عوام، خصوصا ہمارے بچوں، کے لیے یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم اپنی صلاحیت سے کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
’ہم وہ ممکنات دیکھ سکتے ہیں جو آج سے پہلے کسی نے نہیں دیکھیں، ہم ان مقامات تک پہنچ سکتے ہیں جہاں آج تک کسی نے رسائی حاصل نہیں کی۔‘
10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی جیمز ویب ٹیلی سکوپ گذشتہ سال 25 دسمبر کو لانچ کی گئی تھی، جسے مشہور ہبل ٹیلی سکوپ کا جانشین قرار دیا گیا ہے۔
یہ آسمان میں ہر قسم کا مشاہدہ کرے گی لیکن اس کے دو اہم مقاصد ہیں۔ ان میں سے پہلا دور افتادہ سیاروں کا جائزہ لے کر یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ انسانی رہائش کے قابل ہیں یا نہیں اور دوسرا کائنات میں سب سے پہلے چمکنے والے ستاروں کی تصاویر حاصل کرنا ہے جو 13 ارب سال قبل رونما ہونے والا واقعہ ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے سامنے پیش کی جانے والی تصویر اس ٹیلی سکوپ کے دوسرے مقصد کے حصول میں اس کی صلاحیت کی عکاسی کرتی ہے۔
اس تصویر میں آپ کو جنوبی نصف کرہ کے برج میں کہکشاؤں کا جھرمٹ دکھائی دیتا ہے جسے SMACS 0723 کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ جھرمٹ بذات خود اتنا بھی دور نہیں ہے، صرف چار اشاریہ چھ ارب سال کے فاصلے پر موجود ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے ایسی چیزوں کی روشنی نمایاں ہو رہی ہے جو ان سے بھی بہت زیادہ فاصلے پر ہیں۔
اس کی وجہ کشش ثقل کا اثر ہے جو ٹیلی سکوپ کے زوم لینز کا فلکیاتی مساوی ہے۔
ساڑھے چھ میٹر چوڑے سنہری شیشے اور انتہائی حساس انفراریڈ آلات کی مدد سے ویب ٹیلی سکوپ کہکشاؤں کی وہ مسخ شدہ شکل (سرخ قوس) تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو بگ بینگ کے 600 ملین سال بعد موجود تھی۔ (کائنات کی عمر تقریبا 13 اشاریہ آٹھ ارب سال بتائی جاتی ہے)
لیکن اس فلکیاتی دور بین کی نظر اس سے بھی کہیں دور تک پہنچ رہی ہے۔ اس سے حاصل ڈیٹا کے معیار کی مدد سے سائنس دان بتا سکتے ہیں کہ یہ ٹیلی سکوپ اس تصویر میں موجود سب سے دور نظر آنے والی شے سے بھی کہیں آگے تک خلاء میں جھانک سکتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ یہ تصویر اب تک کائنات کا سب سے گہرا ترین مشاہدہ ہے۔
ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کے مطابق روشنی 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور ’جو روشنی آپ یہاں دیکھ رہے ہیں وہ 13 ارب سال کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے۔‘
’اور ہم اس سے بھی پیچھے جا رہے ہیں کیوں کہ یہ تو صرف پہلی تصویر ہے۔ ہم تقریبا 13 ارب سال پیچھے تک جا رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کائنات 13 اشاریہ آٹھ ارب سال پرانی ہے تو دراصل ہم کائنات کے آغاز پر پہنچ رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ ہبل ٹیلی اسکوپ سے ہفتوں تک خلا کا مشاہدہ کیا جاتا تھا تب کہیں جا کر ایسا نتیجہ نکلتا تھا۔ ویب ٹیلی سکوپ نے ان خلائی اشیا کو صرف 12 گھنٹے کے مشاہدے کے بعد ڈھونڈ نکالا۔
ناسا اور ان کے پارٹنر، یورپین اور کنیڈین خلائی ایجنسیز، منگل کو مذید رنگین تصاویر جاری کریں گی۔
ان میں سے ایک موضوع نظام شمسی کے باہر موجود سیاروں کے بارے میں ہو گا۔
ویب نےحال ہی میں ویسپ 96 نامی ایک دیو قامت سیارے کے ماحول کا جائزہ لیا ہے جو زمین سے 1000 شمسی سال کے فاصلے پر موجود ہے۔ اس سے ہمیں اس سیارے کی آب و ہوا کے بارے میں علم حاصل ہو سکے گا۔
عین ممکن ہے کہ ایک دن یہ ٹیلی سکوپ کسی ایسے سیارے کا کھوج نکال لے جس کی ہوا میں ایسی گیسز موجود ہوں جو زمین کو گھیرے میں لیے گیسز سے ملتی جلتی ہوں۔
ناسا کے سائنس دانوں کو یقین ہے کہ ویب ٹیلی اسکوپ اپنا وعدہ پورا کرے گی۔
ڈاکٹر امبر سٹران، جو ڈپٹی پراجیکٹ سائنسٹسٹ ہیں، کہتی ہیں کہ ’میں نے پہلی تصاویر دیکھی ہیں اور یہ شاندار ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ صرف تصاویر کے طور پر ہی حیران کن ہیں۔ لیکن ہم ان کی مدد سے جو کچھ کر سکتے ہیں اس کے بارے میں سوچ کر ہی میں بہت پرجوش ہوں۔‘
ڈاکٹر ایرک سمتھ جو ویب پراجیکٹ کے پروگرام سائنٹسٹ ہیں، کہتے ہیں کہ ’لوگ پہلے ہی اس نئی ٹیلی سکوپ کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں۔‘
’اس کا ڈئزاین، یہ جس طرح نظر آتی ہے، میرا خیال ہے کہ لوگ ان وجوہات کی بنا پر اس مشن کے گرویدہ ہو چکے ہیں۔ یہ مستقبل کے کسی خلائی جہاز جیسی لگتی ہے۔‘
بشکریہ : بی بی سی اردو ڈاٹ کام
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں