اتر پردیش بلڈوزر کاروائی معاملہ :
سپریم کورٹ کا سوال کیا میونسپل قانون کے تحت غیر قانونی تعمیرات کے انہدام پرکورٹ روک لگا سکتی ہے؟
یکے بعد دیگر شہروں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا گیا اس لئے جمعیۃ نے سپریم کورٹ کا دروزہ کھٹکھٹایا، سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ
نئی دہلی 13/ جولائی : یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک کی بلڈوز کے ذریعہ غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ جہانگیر پوری معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے انہدامی کارروائی پر اسٹے دیئے جانے کے باوجود یوپی اور مدھیہ پردیش کے دیگر شہروں میں انہدامی کارروائی کی گئی جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہندکو سپریم کورٹ سے رجوع ہونا پڑا،سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے اعتراض پر کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اس معاملے کوکیوں اٹھایا گیا کے جواب میں سی یو سنگھ نے عدالت کو یہ باتیں کہیں،سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ جن لوگوں کے مکانات منہدم ہوئے ہیں وہ ہائی کورٹ سے رجوع ہوچکے ہیں لہذا سپریم کورٹ کو اس معاملے کو ہائی کورٹ کو دیکھنے دینا چاہئے۔
سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ بلڈوزر کارروائی کا اعلان میونسپل حکام نہیں بلکہ پولس نے کیا، ملک میں قانون کی حکمرانی چلے گی یا پولس کی حکمرانی؟سی یو سنگھ نے مزید کہا کہ ملک میں جہاں بھی فسادات رو نما ہوئے وہاں مخصوص فرقے کے لوگوں کی املاک پر غیر قانونی بلڈوزر چلایا گیا، فساد کے ملزمین کی املاک پر بلڈوزچلانا یہ کہاں کا انصاف ہے؟
سی یو سنگھ نے عدالت کو مزید بتایا کہ اتر پردیش حکومت نے اپنے حلف نامہ میں بتایا ہیکہ انہوں نے تین لوگوں کو نوٹس جاری کیا تھا لیکن ہم نے درجنوں مثالیں پیش کی ہیں جس میں پولس افسران نے اعلان کیا تھا کہ فساد کے ملزمین کی املاک پر بلڈوزر کارروائی انجام دی جائے گی۔
دوران بحث سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے بھی عدالت کو بتایا کہ ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ورنہ کیا بات ہے دہلی کے سینک فارم کوجو غیر قانونی ہے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا پچھلے پچاس سالوں میں۔دہلی میں سیکڑوں غیرقانونی فارم ہاؤس تعمیر کیئے گئے ہیں انہیں کیوں منہدم نہیں کیا جاتا؟
اتر پردیش حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ہریس سالوے نے عدالت کو بتایا جن لوگوں کے مکانات منہدم کیئے گئے ہیں انہیں نوٹس دیا گیا تھا اور پولس اور سیاسی لوگوں کے بیانات جو اخبارات کی زینت بنے ہیں انہیں زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہئے۔
دوران سماعت جسٹس گوئی نے مزید کہا کہ قانون کی پاسداری کرنا ضروری ہے لیکن اگرمیونسپل قانون کے مطابق کوئی عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہے تو کیاعدالت اس کے انہدامی کارروائی پر روک لگا سکتی ہے؟
فریقین کی بحث کے بعدجسٹس بی آر گوئی اور جسٹس نرسہما نے فریقین کو حکم دیا کہ وہ آٹھ اگست تک اس مقدمہ سے متعلق دستاویزات عدالت میں داخل کریں، دس اگست کو عدالت اس معاملے کی حتمی سماعت کریگی۔
واضح رہے کہ گذشتہ شب اتر پردیش حکومت نے جمعیۃ علماء ہند کے جوابی حلف نامہ کے جواب میں تازہ حلف نامہ داخل کیا جس میں تحریر ہیکہ میونسپل کارپوریشن ایکٹ کی دفعہ 296 کے تحت میونسپل کمشنر غیر قانونی تعمیرات کو بغیر نوٹس کے کارروائی کرسکتا ہے حالانکہ پہلے کہ حلف نامہ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا بلکہ مسلسل یہ بات کہی گئی کہ نوٹس دینے کے بعد ہی انہدامی کارروائی انجام دی گئی لیکن جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دستاویزات اور فوٹوز کے ذریعہ عدالت کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ بغیر نوٹس کے انہدامی کاروائی انجام دی گئی۔
آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن، ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ نظام الدین پاشا، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر پیش ہوئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں