لوجہاد کے ایک کیس کی اصلیت کا پردہ فاش ہوا ہے،
✍: سمیع اللہ خان
دہلی کی ایک ہندو عورت جس نے پہلے لوجہاد کے سہارے ایک 27 سالہ مسلمان تاجر پر عصمت دری کا الزام لگایا تھا اُس عورت نے بالآخر مزید تفتیش کےبعد حقیقت بیانی کردی ہے،
ہندو خاتون " رادھا " کےمطابق: " دو ہندو افراد، امن چوہان اور آکاش سولنکی نے " رادھا " کو اس کام کے لیے اجرت پر طلب کیا تھا کہ وہ مسلمان تاجر پر الزام لگاکر اسے لوجہاد کے مقدمے میں پھنسائے، اس کا اعتراف خود رادھا نے آن ریکارڈ کرلیا ہے، رادھا سے لوجہاد کا یہ سازشی مقدمہ کروانے والوں میں سے ایک شخص بھارتیہ جنتا پارٹی کی یوتھ ونگ کا ضلعی نائب صدر بھی ہے، ٹائمز آف انڈیا نے بھی اسے رپورٹ کیا ہے_ اس لنک پر اسے پڑھ سکتےہیں، http://toi.in/VHVbvb10/a24gj
اس ملک میں اب یہ بہت عام بات ہوتی جارہی ہے کہ چالاک ہندو اپنی ذاتی دشمنی اور جھگڑوں کے لیے مسلمانوں کےخلاف ہندوتوا کارڈ کھیل کر خود کو مضبوط کرتے ہیں، اور عوامی مقامات پر مسلمانوں کو اجنبی بنانے کے لیے کبھی نماز تو کبھی اذان کے خلاف ہنگامہ کھڑا کرتےہیں،
یوپی، ہریانہ، مدھیہ پردیش، گجرات اور کرناٹک کے ہندوﺅں کے لیے اب یہ ہندوتوا کارڈ اپنی بالادستی کے مظاہرے کا بڑا ذریعہ بن گیاہے، بھاجپا اور سخت گیر ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ ہندو، اپنی نفسیاتی تسکین اور انجوائے کے لیے مسلمانوں کو اذیت پہنچا کر خوش ہوتے ہیں، جس ملک میں صرف نفسیاتی انا کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے ایک پوری ملت کو حیوانیت اور ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنایا جانے لگے اُس ملک کا انجام کیا ہوگا؟ _
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں