.. . سلسلہ وعظ و نصیحت
عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہونے کا مطلب !
افادات : شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ
اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے بہت اچھی تشبیہ بیان فرمائی ہے اور یہ اتنی عجیب و غریب اور حکیمانہ تشبیہ ہے کہ ایسی تشبیہ ملنا مشکل ہے۔ فرمایا کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، بعض لوگوں نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلا م کو پیدا فرمایا۔ اس کے بعد حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو انہی کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور بعض علماء نے اس کی دوسری تشریح یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عورت کی تشبیہ دیتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ عورت کی مثال پسلی کی سی ہے کہ جس طرح پسلی دیکھنے میں ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے لیکن پسلی کا حسن اور اس کی صحت اس کے ٹیڑھا ہونے میں ہی ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اگر یہ چاہے کہہ پسلی ٹیڑھی ہے اس کو سیدھا کردوں تو جب اسے سیدھا کرنا چاہے گا تو وہ سیدھی تو نہیں ہوگی البتہ ٹوٹ جائے گی، وہ پھر پسلی نہیں رہے گی اب دوبارہ پھراس کو ٹیڑھا کرکے پلستر کے ذریعہ جوڑنا پڑے گا، اسی طرح حدیث شریف میں عورت کے بارے میں بھی یہی فرمایا کہ:
’’إِنْ ذَہَبْتَ تُقِیْمُہَا کَسَرْتَہَا‘‘
’’اگر تم اس پسلی کو سیدھا کرنا چاہوگے تو وہ پسلی ٹوٹ جائیگی‘‘۔
’’وَاِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِہَا اسْتَمْتَعْتَ بِہَا وَفِیْہَا عِوَجٌ‘‘
اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو، تو اس کے ٹیڑھے ہونے کے باوجود فائدہ اٹھائوگے یہ بڑی عجیب و غریب اور حکیمانہ تشبیہ حضور اقدس ﷺ نے بیان فرمائی کہ اس کی صحت ہی اس کے ٹیڑھے ہونے میں ہے اگر وہ سیدھی ہوگی تو وہ بیمار ہے صحیح نہیں ہے۔
یہ عورت کی مذمت کی بات نہیں ہے
بعض لوگ اس تشبیہ کو عورت کی مذمت میں استعمال کرتے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، لہٰذا اس کی اصل ٹیڑھی ہے چنانچہ میرے پاس بہت سے لوگوں کے خطوط آتے ہیں جس میں کئی لوگ یہ لکھتے ہیں کہ یہ عورت ٹیڑھی پسلی کی مخلوق ہے، گویا کہ اس کی مذمت اور برائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، حالانکہ خود نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کا منشا یہ نہیں ہے۔ عورت کا ٹیڑھا پن ایک فطری تقاضہ ہے
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو کچھ اور اوصاف دے کر پیدا فرمایا ہے اور عورت کو کچھ اور اوصاف دے کر پیدا فرمایا، دونوں کی فطرت اور سرشت میں فرق ہے، سرشت میں فرق ہونے کی وجہ سے مرد عورت کے بارے میں یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ میری طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، حالانکہ عورت کا تمہاری طبیعت کے خلاف ہونا یہ کوئی عیب نہیں ہے کیونکہ یہ ان کی فطرت کا تقاضہ ہے کہ وہ ٹیڑھی ہو۔ کوئی شخص پسلی کے بارے میں یہ کہے کہ پسلی کے اندر جو ٹیڑھا پن ہے وہ اس کے اندر عیب ہے، ظاہر ہے کہ وہ عیب نہیں بلکہ اس کی فطرت کا تقاضہ ہے کہ ٹیڑھی ہو اس لئے آنحضرت ﷺ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اگر تمہیں عورت میں کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جو تمہاری طبیعت کے خلاف ہو اور اس کی وجہ سے تم اس کو ٹیڑھا سمجھ رہے ہو تو اس کو اس بناء پر کنڈم نہ کرو، بلکہ یہ سمجھو کہ اس کی فطرت کا مقتضا یہ ہے، اور اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہوگے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر فائدہ اٹھانا چاہوگے تو ٹیڑھا ہونے کی حالت میں بھی فائدہ اٹھاسکوگے۔
’’غفلت‘‘ عورت کے لئے حسن ہے
آج زمانہ الٹا آگیا ہے، اس واسطے قدریں بدل گئیں ہیں ، خیالات بدل گئے، ورنہ بات یہ ہے کہ جو چیز مرد کے حق میں عیب ہے، بسااوقات وہ عورت کے حق میں حسن اور اچھائی ہوتی ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کو غور سے پڑھیں تو قرآن کریم سے یہ بات نظر آجاتی ہے کہ جو چیز مرد کے حق میں عیب تھی وہی چیز عورت کے بارے میں حسن قرار دی گئی اور اس کو نیکی اور اچھائی کی بات کہاگیا۔ مثلاً مرد کے بارے میں یہ بات عیب ہے کہ وہ جاہل اور غافل ہو۔ اور دنیا کی اس کو خبر نہ ہو۔ اس لئے کہ مرد پر اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کاموں کی ذمہ داری رکھی ہے اس لئے اس کے پاس علم بھی ہونا چاہئے اور اس کو باخبر بھی ہونا چاہئے، اگر باخبر نہیں ہے، بلکہ غافل ہے اور غفلت میں مبتلا ہے تو یہ مرد کے حق میں عیب ہے لیکن قرآن کریم نے غفلت کو عورت کے حق میں حسن قرار دیا۔ چنانچہ سورۂ نور میں فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ۔ (سورۂ نور:۲۳)
’’یعنی وہ لوگ جو ایسی عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں جو پاکدامن ہیں ، اور غافل ہیں ، یعنی دنیا سے بے خبر ہیں ‘‘۔
تو دنیا سے بے خبری کو ایک حسن کی صفت کے طور پر قرآن کریم نے بیان فرمایا۔ معلوم ہوا کہ اگر عورت دنیا کے کاموں سے بے خبر ہو اوراپنے فرائض کی حد تک واقف ہو اور دنیا کے معاملات اتنے نہ جانتی ہوتو وہ عورت کے حق میں عیب نہیں بلکہ وہ صفتِ حسن ہے، جس کو قرآن کریم نے صفت حسن کے طور پر ذکر فرمایا۔ زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو
لہٰذا جو چیز مرد کے حق میں عیب تھی وہ عورت کے حق میں عیب نہیں اور جو چیز مرد کے حق میں عیب نہیں تھی بعض اوقات وہ عورت کے حق میں عیب ہوتی ہے۔ اس لئے اگر تمہیں ان کے اندر کوئی ایسی چیز نظر آئے جو تمہارے لئے تو عیب ہے لیکن عورت کے لئے عیب نہیں تو اس کی وجہ سے عورت کے ساتھ برتائو میں خرابی نہ کرو، اس لئے کہ پسلی ہونے کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے تمہاری طبیعت سے مختلف ہوتو اب اس کو زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو۔
( اصلاحی خطبات جلد نمبر 2/ صفحہ 34-35-36)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں