پھانسی کے سزا دیئے جانے والے نچلی عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا، گلزار اعظمی
ممبئی 6/ جون : غازی آباد کی خصوصی سیشن عدالت کے جج جتیندر کمار سنہا نے آج یہاں 2006سنکٹ موچن مندر سلسلہ وار بم دھماکہ معاملے کے اکلوتے ملزم مفتی ولی اللہ کو پھانسی کی سزا سنادی۔ مفتی ولی اللہ کا تعلق اتر پردیش کے پھولپور سے ہے۔عدالت نے ملزم کو دو مقدمات میں قصور وار ٹھہرایا ہے جبکہ ایک مقدمہ سے بری کردیا۔
گذشتہ دس سالوں سے ملزم کو جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے قانونی امداد فراہم کی جارہی تھی، سال 2006میں ملزم کی گرفتاری کے بعد اسے وارانسی عدالت میں ملزم کو پیش کیا گیا تھا لیکن وکلاء کے مسلسل بائیکاٹ کے بعد ملزم ولی اللہ کا مقدمہ غازی آباد منتقل کردیا گیا۔ غازی آباد مقدمہ منتقل ہونے کے بعد ملزم کے اہل خانہ کی درخواست پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نے ملزم کے دفاع میں ایڈوکیٹ عارف علی اور ایڈوکیٹ مہیش چند کو مقرر کیا تھا جنہوں نے اس کا فاع کیا۔
اس ضمن میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ نچلی عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا کیونکہ عدالت نے استغاثہ کے دلائل کو من و عن قبول کرلیا جبکہ دفاعی وکلاء کے دلائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی، اگر عدالت دفاعی وکلاء کے دلائل کو قبول کرلیتی تو ملزم تینوں مقدمات سے بری ہوجاتا، ایک مقدمہ سے بری ہونا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ملزم پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا تھا ورنہ عدالت ملزم کو تینوں مقدمات میں قصور وار ٹہراتی، تینوں مقدمات کے گواہان کی گواہی کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملزم کے خلاف استغاثہ نے عدالت میں انتہائی کمزور ثبوت و شواہد پیش کیئے تھے اس کے باوجود ملزم کو قصور ٹھہرایا گیا جس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیاجائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس معاملے میں تمام سرکاری گواہوں کے بیانات کا اندراج کئی سال پہلے ہی مکمل ہوچکا ہے نیز فریقین کی جانب سے متعدد مرتبہ حتمی بحث بھی کی گئی لیکن فیصلہ ظاہر کرنے سے قبل ہی ججوں کو منتقل کردیا گیا جس کی وجہ سے مقدمہ ختم نہیں ہوپارہا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے بعد موجودہ جج نے فیصلہ سنایا جس میں اس نے ملزم کو تین مقدمہ میں سے دو میں قصور وار ٹھہرایا ہے اور ایک مقدمہ سے بری کردیا۔
انہوں نے کہا کہ مفتی ولی وللہ کو 5/ اپریل 2006ء کو لکھنؤ سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر مندر میں بم دھماکہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تعزیرات ہند کی دفعات 304,302,307,324 اور آتش گیر مادہ کے قانون کی دفعات 3,4,5 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
سال2011ء میں غازی آباد کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کی باقاعدہ سماعت کا آغاز کیا اور دوران سماعت 48/ گواہوں کے بیانات کا اندراج عمل میں آیا جبکہ اس دوران یکے بعد دیگرے آٹھ ججوں کی منتقلی ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں