src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> اتر پردیش بلڈوزر کاروائی معاملہیوپی حکومت کے حلف نامے پرجمعیۃ علماء ہند نے جوابی حلف نامہ داخل کیا - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

منگل، 28 جون، 2022

اتر پردیش بلڈوزر کاروائی معاملہیوپی حکومت کے حلف نامے پرجمعیۃ علماء ہند نے جوابی حلف نامہ داخل کیا




اتر پردیش بلڈوزر کاروائی معاملہ


یوپی حکومت کے حلف نامے پر جمعیۃ علماء ہند نے جوابی حلف نامہ داخل کیا



مولانا ارشد مدنی کی خصوصی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے داخل کی ہے یہ اہم پٹیشن





نئی دہلی 28؍ جون 2022 : یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوز کے ذریعہ غیر قانونی انہدامی کاروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی جانب سے داخل پٹیشن پرکل سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئے گی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ اور ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن پیش ہونگے۔ اس اہم پٹیشن پرسپریم کورٹ کی تعطیلاتی بینچ کے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا سماعت کریں گے۔اسی درمیان آج جمعیۃ علماء ہند نے یو پی حکومت کی جانب سے داخل حلف نامہ کے جواب میں جوابی حلف نامہ عدالت میں داخل کردیاہے جس میں تحریر ہے کہ چیف منسٹر یوپی یوگی آدتیہ ناتھ، اعلی پولس افسران و دیگر کی جانب سے عوامی بیانات میں احتجاج کرنے والوں کے متعلق کہا گیا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو ایسا سبق سکھایا جائے گا جو دوسروں کے لئے مثال بنے گا، یوپی حکومت کے حلف نامے میں اس پر ایک لفظ تک نہیں کہا گیا ہے اور نہ ہی سہارنپور میں مسلمانوں کی املاک پر چلے بلڈوزر کا ذکر ہے۔اسی طرح الہ آباد میں محمد جاوید کا جو مکان منہدم کیا گیا اس تعلق سے بھی حقیقت بیانی نہیں کی گئی ہے،مکان جب جاوید کی اہلیہ کے نام پر تھا تو انہدامی کارروائی سے ایک شب قبل مکان پر نوٹس چسپاں کئے جانے کا کیا مطلب ؟ جوابی حلف نامے میں وضاحت کی گئی ہے کہ یوپی کے مختلف شہروں میں انہدامی کاروائی انجام دی گئی جبکہ حلف نامہ میں صرف تین جگہوں کا ہی ذکر کیا گیاجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یو پی حکومت عدالت سے حقائق کو چھپانا چاہتی ہے ۔ جوابی حلف نامہ میں مزید لکھا گیا ہیکہ احتجاج کے بعد ہی کیوں بلڈوزر کی کارروائی شروع کی گئی نیز سپریم کورٹ کی گائڈلائنس کو بالائے طاق رکھ کر ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کے مکانات مہندم کیئے گئے جب کہ اگر تجاؤزات ہٹانا ہی مقصد ہے تو بلا تفریق مذہب کیا جانا چاہئے اور وہ بھی قانون کے مطابق ۔جوابی حلف نامہ میں مزید تحریر کیا گیا ہیکہ دہلی، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ، اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں یکے بعد دیگرے غیر قانونی بلڈوزر کاررائی انجام دی گئی جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے نیز جن لوگوں کے مکانات کو نقصانات پہنچایا گیا ہے و ہ ذاتی طور پر بھی ہائی کور ٹ سے رجوع ہوئے ہیں ۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کی سماعت پر جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء نتیا راما کرشنن اور سی یو سنگھ پیش ہوئے تھے جنہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ کارروائی پر عدالت نے غیر قانونی بلڈوزر انہدامی کارروائی پر نوٹس جاری کیئے جانے کے بعد بھی یوپی میں غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے جس پر روک لگانا ضروری ہے نیز ان افسران کے خلاف کارروائی کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی بنے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages