تاج محل
عبدالرشید ایڈوکیٹ ہائی کورٹ۔
ریاستی سینئر نائب صدر مومن انصار سبھا لکھنؤ۔
تاج محل کو شہنشاہ شاہجہاں نے 1643 میں اپنی پیاری ملکہ ممتاز محل کی یاد میں آگرہ میں دریائے جمنا پر تعمیر کروایا تھا۔
تاج محل کو محبت کی علامت کہا جاتا ہے۔ اس وقت یہ دنیا کے سات عجائبات میں پہلے نمبر پر ہے۔ اگرچہ مغل دور کی تمام تاریخی عمارتیں مشہور ہیں لیکن سب سے مشہور تاج محل ہے۔ آج تک کوئی ایسی عمارت نہیں مل سکی جو اپنی بیوی کی یاد میں بنوائی گئی ہے ، یہ ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو اپنی بیویوں کی قدر نہیں کرتے۔
1628ء میں تاج محل کا ڈیزائن تیار کیا گیا اور 1632ء سے تعمیراتی کام شروع ہوا جو 1643ء میں مکمل ہوا، حالانکہ یہ کام 1653ء تک جاری رہا، جس میں اردگرد کی عمارتیں اور باغات اور مسجد وغیرہ کی تعمیر تھی ۔
1631ء میں شاہ جہاں نے فتح کا پرچم پورے ہندوستان میں لہرایا ، اس کے بعد تاج محل کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اس کے چیف انجینئر استاد احمد لاہوری تھے۔ اس وقت نہ تو کوئی انجینئرنگ کالج تھا اور نہ ہی ایسی کوئی ٹیکنیکل ڈگری لیکن کمال یہ تھا کہ آج آگرہ کے تاج محل سے بڑے بڑے سائنسدان اور انجینئر واستو آرٹ سیکھنے آتے ہیں۔
یہ دریائے جمنا کے کنارے پر واقع ہے۔ اس کی تعمیر میں 25000 سے زیادہ کاریگروں اور مزدوروں نے کام کیا اور اس وقت 32 ملین روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس کا سنگ مرمر بہت قیمتی ہے۔
1983 میں، تاج محل عالمی ثقافتی ورثہ بن گیا اور اسے ہندوستان کے اسلامی فن کا ایک جواہر بھی قرار دیا گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی اپنے مضمون میں مغل فن تعمیر کو بیان کیا ہے۔ فارسی اور مغل فن تعمیر کے حیرت انگیز نمونے ملتے ہیں۔ اس میں قرآن کی آیات کنندہ ہیں۔
تاج محل کی نقاشی بہت خوبصورت انداز میں کی گئی ہے جس کا دیدار کرکے ہی اس کی عزت، خوبصورتی اور خوبصورتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کاریگری کی بہترین مثال یہ ہے کہ پہلی بارش سے پانی کا ایک قطرہ مزار پر ٹپکتا ہے جس کا سراغ آج تک کسی سائنسداں کو نہیں مل سکا۔
2007 میں اسے دنیا کے سات عجائبات میں شامل کیا گیا اور اسے پہلا نمبر دیا گیا ہے۔ یہ ہمارے ملک کے لیے بہت فخر کی بات ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے 9 سے 10 ملین سیاح اسے دیکھنے کے لیے بھارت آتے ہیں جس کی وجہ سے بھارت کو ہر سال ہزاروں کروڑ کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
شاہ جہاں کے وقت کے مورخ عنایت خان نے شاہ جہاں نامہ لکھا جس میں تاج محل کا ذکر ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ میں تاج محل پر ہندی، انگریزی اور اردو میں مضمون لکھے جاتے تھے۔
مغلوں پر لوٹ مار کا سراسر جھوٹا بہتان لگایا جاتا ہے، اگر وہ لوٹ مار کرتے تو یہاں عظیم الشان عمارتیں نہ بناتے، نہ مندروں کو جاگیریں دیتے، نہ اپنی قبریں بناتے، نہ ہندو مسلم بھائی چارے کو فروغ دیتے، ہندوستان کا نام بدل کر کچھ اور رکھتے۔ لوٹ مار تو انگریزوں نے کی یا آج کل وکاس کے نام پر ملک کو لوٹا جا رہا ہے۔
جن کی سرزمین پر تاج محل بنا انہیں چار سو سال تک کوئی اعتراض نہیں تھا، اب کچھ چنٹؤں کو ساتھ ہو رہا ہے جو اپنی تیسری پشت کا نام تک نہیں جانتے ہیں۔ تاہم تاج محل عالمی ورثہ ہے، پوری دنیا کی نظریں اس کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ یہ حکومت ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ہتھکنڈوں پر لگام ڈالے جو ملک کی شبیہ کو خراب کر رہے ہیں۔
تقریباً 400 سال بعد یہ شگوفہ چھوڑا جا رہا ہے کہ مندر کو گرا کر تاج محل بنایا گیا ہے۔ کن کو تکلیف ہورہی ہیں وہ اس سے شاندار عمارت تعمیر کرائیں تاکہ دنیا اسے دیکھیں، دوسروں کی عمارت پر اپنا نام لکھنا بے ایمانی ہے۔ اسی لیے ہائی کورٹ نے سرزنش کی ہے کہ پہلے تاریخ پڑھو، پی ایچ ڈی کرو تاج محل پر، پھر آناعدالت میں۔ جج صاحبان جانتے ہیں کہ تاج محل ہندوستان کا فخر ہے۔ اسے بچانا سب کا فرض ہے۔
اس دور کا بدلہ آج کے لوگوں سے لیا جا رہا ہے، نفرتیں اتنی اچھی نہیں، وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، جو بوؤگے وہی کاٹوگے، ایسا نہ ہو کہ انجام عبرت ٹاک ہو اور آنے والی نسلیں معاف نہ کرسکیں. ہماری دعا ہے کہ ملک پھلے پھولے ترقی کرے، محبتیں عام ہوں، نفرتوں کا خاتمہ ہو، لیڈروں کو پہل کرنی ہوگی، تب ہی ہندوستان عالمی گرو بنے گا۔
ترجمہ : وفا ناہید
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں