کلاسیکی شاعری کے لیے ضروری نہیں کہ میر کے عہد کی شاعری کو ہی کلاسیکی شاعری کہا جائے۔ شیخ عقیل احمد
نئی دہلی، 23مارچ : اردو شاعری کی کلاسیکی غزل کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ کلاسیکی شاعری کے لیے ضروری نہیں کہ میر کے عہد کی شاعری کوہی کلاسیکی شاعری کہا جائے۔ یہ بات انہوں نے شعبہئ اردو،دہلی یونیورسٹی کے زیراہتمام غالب یادگاری خطبہ بعنوان’کلاسیکی غزل:شناخت و امتیازات‘ کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ آپ نے مجھے اپنے گھرمیں مہمان خصوصی کے طور پر شریک کیا۔ میرے لیے شعبے میں اس طور شریک ہونا باعث اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسا موضوع ہے، جس سے دوران طالب علمی میں ڈرا سہما رہتا تھا۔ ادب میں بہت سے اوہام بھی وضع کیے گئے ہیں، جن کا بروقت جواب نہیں دیا گیا۔ بت سازی اور بت گری کا کام ہر زمانے میں چلتا رہا ہے۔
پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر قاضی جمال حسین، سابق پروفیسر شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کہا کہ میرے مخاطب طلبا و طالبات ہیں، ایک استاد ہونے کے ناطے میری یہ ذمہ داری بھی ہے۔ غزل قلی قطب سے لے کرہم تک ایک تسلسل کانام ہے۔ غزل بت ہزار شیوہ ہے۔ ان چیزوں پر زیادہ توجہ ہونی چاہیے کہ وہ کیا عناصر ہیں، جن کی وجہ سے غزل کلاسیکی، جدید اور معاصر غزل کہلاتی ہے۔ غزل بت ہزار شیوہ ہے۔ اس پر گرفت کرنا، اسے پکڑ پانا مشکل کام ہے۔ شاعری جزو پیغمبری ہے۔ دراصل شاعری بھی مادیت سے متعلق نہیں ہوتی۔ اس لیے جزو پیغمبری اسے کہا جاتا ہے۔ یہ قول دراصل غزل کے لیے ہے۔ یوں تو نظم کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں۔ کوئی مضمون خلاء میں تخلیق نہیں ہوتا ہے۔ ہر اگلا مضمون پچھلے مضمون سے کسی نہ کسی طور منسلک ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حالی نے کہا تھا کہ شاعری معنی آفرینی کا نام ہے۔ کلاسیکی شاعری سحرکاری، نکتہ آفرینی اورفلسفہ و دانش کا نام ہے۔ شاعری سحر و جادو ہے۔ اسی کی وضاحت کے لیے ہم آج اکٹھا ہوئے ہیں۔ نظامی عروضی سمرقندی محاکات کو عالم ایجاد کا نام دیتا ہے۔ شاعر کے اندر غیرمعمولی قوت ایجاد ہوتی ہے۔ مفرد الفاظ کے معانی ہوتے ہیں، جو لغت تک محدود ہوتے ہیں۔ ایک لفظ کے ساتھ جب دوسرا لفظ رکھا جاتا ہے، تو دونوں میں برقی رو دوڑ جاتی ہے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں دنیا کی بڑی برائی بیان کی گئی ہے۔آ ج کے شعراء دنیا کی برائی بیان نہیں کرتے بلکہ اسی کے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں۔ موجود کو معدوم، حقیقت کو موہوم اور موہوم کو حقیقت میں بدل دینا ہی شاعری ہے اور شاعری کے لیے ایک ملکہ درکار ہوتا ہے۔ تصوف کے مضامین ہمارا کوئی معاصر شاعر نہ باندھتا ہے نہ باندھنے کا اہل ہے۔.
مہمان ذی وقار پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ جووقت میں نے یہاں گزارا ہے، وہ کافی اہم ہے۔میرے لیے باعث اعزاز ہے کہ مجھے آج اپنی مادری درس گاہ میں مہمان ذی وقار کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ میں بھی آج کے خطبے سے مستفید ہوا ہوں، علم و ادب کو متشکل دیکھنا ہے تو قاضی برادران کی شکلوں کودیکھیں۔
پروگرام کے آغاز میں شعبۂ اردو کی صدر اور آرٹس فیکلٹی کی ڈین پروفیسر نجمہ رحمانی نے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ یہ لمحہ میرے لیے بڑا تاریخی ہے۔میں اکثر سوچتی تھی کہ قاضی برادران ہمارے شعبہ میں تشریف لائیں، میری دیرینہ خواہش آج پوری ہوئی ہے۔ آج کے موضوع پر قاضی برادران سے بہتر نام شاید نہیں ہوسکتا تھا۔ مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کی شخصیت بھی اہم ہے۔ اجملی صاحب میرے کلاس میٹ ہیں اور شیخ عقیل میرے سینئر ہیں۔ آج ہم سب کہیں نہ کہیں موجود ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ میں آج سب کا اس پروگرام میں استقبال کرتی ہوں۔ یہ موضوع ہمارے طلبا و طالبات کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ میں اپنے طلبا و طالبات کا بھی اس پروگرام میں استقبال کرتی ہوں۔
غالب یادگاری خطبہ کے کنوینر پروفیسر ابوبکر عباد نے قاضی برادران کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ قاضی افضال حسین صاحب کی علمی و فکری حصولیابی کے سامنے انھیں ملنے والے ایوارڈس اور مختلف ممالک کے اسفار لایعنی سے لگتے ہیں۔ قاضی افضال صاحب کا اتنا تعارف کافی ہے کہ آپ قاضی افضال حسین ہیں۔ آپ کی کتابوں اور مضامین و مقالات سے ہم سب واقف ہیں، صنفیات نامی کتاب بیانیے کے حوالے سے اہم کتاب ہے۔ قاضی جمال حسین صاحب بھی محتاج تعارف نہیں ہیں۔ ان کی کتابوں اور مضامین و مقالات کا مطالعہ ہم سب کرتے رہے ہیں۔شعبۂ اردو اور اس کے طلبا و طالبات اور ہم سب خوش قسمت ہیں کہ آپ کو ہم سن رہے ہیں .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں