مالیگاؤں کے رضا چوک پر ناجائز قبضہ جات کی وجہ سے چار سالہ معصوم بچہ ٹرک کی زد میں آکر ہلاک ,
حاجی آصف نیشنل نے کیا غم و غصہ کا اظہار !!
مالیگاؤں(نامہ نگار) انسانی جانوں کا اتلاف آج کی دنیا میں کوئی نئی بات نہیں. جنگ ہو یا بیماری دونوں میں ہی بے گناہوں کا خون بے دریغ بہہ جاتا ہے. انسانی جانوں کی قیمت وہی لوگ بہتر جانتے ہیں جو اپنی جان کی بازی لگا کر بے گناہوں کی جانوں کو بچاتے ہیں. ماضی میں سیلاب کے تند و تیز تھپیڑوں یا گہرے اندھے کنوؤں سے شکیل تیراک نےبےشمار جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا تھا. اسی طرح آج قید و بند کی سزائیں جھیلنے والے ضیاء مسکان نے بھی کورونا کے شکار مریضوں کو بروقت آکسیجن اور طبی امداد پہنچاتے ہوئے بے شمار قیمتی جانوں کا اتلاف ہونے سے بچایا تھا لیکن اس کے برعکس آج کے سنگین حالات میں ناجائز قبضہ جات ہر عمر کے افراد کی جان لینے کے در پے ہیں.مالیگاؤں شہر میں میونسپل عملہ کی لاپرواہی اور چشم پوشی کی وجہ سے ناجائز قبضہ جات کا سیلاب امڈ آیا ہے.جس جاہ دیکھیں جس شاہراہ پر دیکھیں چوک چوراہوں اور گلیوں میں دیکھیں ہر کوئی اپنے ناجائز قبضہ جات کی وجہ سے راستوں کو تنگ کرتا جارہا ہے. ناجائز قبضہ جات کرنے والوں کو اس بات کی مطلق بھی پرواہ نہیں کہ ان کے اس قبیح فعل کی وجہ سے کتنوں کی جانیں جا سکتی ہیں.حالانکہ مالیگاؤں شہر مسجدوں میناروں دینی درس گاہوں اور علمائے دین کے جم غفیر کا شہر کہلاتا ہے نماز جمعہ سے قبل علمائے دین اپنے خطاب کے ذریعے ناجائز قبضہ جات کے خلاف بیانات بھی دیا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ناجائز قبضہ جات کا یہ فعل دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے. قومی شاہراہ آگرہ روڈ تو طویل عرصہ سے حادثوں کی آمجگاہ بنی ہوئی ہے لیکن تعجب اس وقت ہوتا ہے جب مضافات کے دور افتادہ علاقہ رضا چوک پر ایک بھاری بھرکم مال ٹرک چار سالہ معصوم حفیظ الرحمان عبداللہ انصاری ساکن بسم اللہ نگر کے سر کو بے دردی سے کچل جاتا ہے. اطلاعات کے مطابق کل شب یہاں کے رضا چوک پر ایک چار سالہ معصوم بچہ جو اپنے والد کے ساتھ دوا لانے جارہا تھا. ناجائز قبضہ جات کی وجہ سے اپنے والد کی آنکھوں کے سامنے ٹرک کی زد میں آ کر جاں بحق ہوگیا. اس طرح کا سنگین حادثہ مالیگاؤں میں پہلی بار رونما نہیں ہوا ہے. اس سے قبل بھی شہر کے سینکڑوں معصوم بچپن اس طرح کے دردناک حادثات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں. اگرچہ ناجائز قبضہ جات کو طول دینے میں میونسیل عملہ ذمہ دار ہے تو عوام بھی کم ذمہ دار نہیں. آج شہر کے ذی حیثیت افراد لاکھوں کی زمین خرید کر لاکھوں مالیت سے عالیشان مکانات تعمیر تو کر لیتے ہیں لیکن ناجائز قبضہ جات کرنے کی ان کی اذلی فطرت نہیں جاتی. اپنے عالیشان مکانات کی تعمیر کرتے ہوئے یہ ذی اثر افراد گٹروں کے اوپر اپنے رسوئی گھر, حمام اور بیت الخلاء کی تعمیر کرکے گٹروں کا راستہ مسدود کرنے کے بعد اس کے آگے پانی کی ٹانکییاں اور اپنی مہنگی ترین موٹر سائیکل, آٹو رکشہ وغیرہ پارک کرتے ہوئے آنے جانے والوّ پر اپنی امارت کا رعب ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. انھیں اس کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کہ ان کے اس قبیح فعل کی بدولت آمد و رفت میں مصروف ہر عمر کے افراد خصوصاً خواتین اور بچوں کو کس قدر دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے.اس تعلق سے شیو سینا کے حاجی آصف نیشنل نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسہا برس سے ناجائز قبضہ جات کا یہ طولانی سلسلہ پوری شد و مد سے جاری و ساری ہے. عوام نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کوئی ایک لیڈر ناجائز قبضہ جات کے اس بڑھتے سلسلے کو روکنے کے لئے میدان عمل میں آتا ہے تو اس کے مخالفین حزب اختلاف کے رہنماؤں کو بلا کر اس کے سدباب کے لئے رجوع بہ کار کرنے کی کوششیں کرتے ہیں. یوں ناجائز قبضہ جات کا یہ بے کراں سلسلہ مفاہمت اور مخالفت کے درمیان آ کر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے. اس کے بر عکس اس حقیقت سے انحراف کسی بھی صورت ممکن نہیں کہ ایسے ہر حادثے کے بعد عوامی غم و غصہ عود آتا ہے لیکن چند دنوں کے بعد پانی کے بلبلوں کی طرح بیٹھ جایا کرتا ہے. آج ضرورت ہے کہ اپنی تمام تر حمایت و مخالفت اور سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہر کی سبھی سیاسی پارٹیاں ملی و سماجی تنظیمیں عوامی جم غفیر کے ہمراہ ناجائز قبضہ جات کے اس طوفان بلا خیز پر قدغن لگانے کے لئے میدان عمل میں آئیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب شہریان کو آمد و رفت کے لئے کوئی بھی شاہراہ نصیب نہ ہوگی اور سارے شہر میں دیہاتوں, کھیتوں کھلیانوں کی طرح پگڈنڈیاں نظر آئیں گی جن پر چلنا پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر رواں دواں کرنے کے مترادف ہوگا


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں