(یوم خواتین پر خصوصی تحریر)
عورت نے جنم دیا مردوں کو, مرد نے اسے بازار دیا!!
از : خیال اثر
عورت خدا کی پیدا کردہ وہ مخلوق جو انسانی زندگی میں بہاریں جا گزیں کرنے کا سبب بنتی ہے. کبھی بیٹی بن کر تو کبھی ماں بن کر کبھی بیوی بن کر انسانوں کی بےنام اندھیری راتوں کو روپہلی چاندنی سے آشنائی بخشتی ہے تو کبھی ہمدم و دمساز بن کر راہوں کے سارے نکیلے خار اپنی پلکوں سے چن لیا کرتی ہے. نسل انسانی کو بڑھانے کا ذریعہ بننے والی یہ عورت ذات صدیوں سے محکوم رہی ہے. کبھی والدین کی چوکھٹ کے پار نہ ہو پائی تو کبھی شوہر کی اطاعت پر صابر و شاکر رہی. کبھی اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت کے لئے زمانے کے سارے سرد و گرم خندہ پیشانی سے جھیل لئے. یہی عورت جب راج کرنے پر آئی تو کبھی قلو پطرہ بن کر کبھی ہیلن آف ٹرائے بن کر. اگر یہی عورت محبت پر آمادہ ہو جائے تو کبھی لیلی بن جائے. کبھی سوہنی. کہیں شیریں بن جائے اور کہیں سسی بن جائے لیکن یہی عورت ذات آج پستیوں کی اتھاہ دلدلوں میں دھنستی جارہی ہے اور اس کی ذمہ دار وہ خود نہیں بلکہ انھیں اپنا محکوم بنا کر رکھنے والی وہ مذموم قوتیں ہیں جو خواتین کو آج اپنے مقصد براری کے لئے استعمال کرنے کے در پے ہیں. کہیں شوبز کی خیرہ کن چمک دمک کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بدنامیوں کے محبس میں قید کردینا ہو. فلم اور گلیمر کی رنگ بدلتی دنیا میں ان ہی خواتین کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے. حد تو اس وقت ہو جاتی ہے جب مردوں کے استعمال میں ہونے والی اشیاء کے اشہتارات میں بھی نیم برہنہ خواتین کو ماڈل بنا کر ایستادہ کردیا جاتا ہے. خواتین کو حرص و ہوس کے بازاروں میں ننگا نچوایا جاتا ہے. نہ جانے کتنی صدیوں سے ہمارے مہذب سماج کی ٹھوکروں میں پلنے والی یہ عورت ذات اپنی تذلیل کا تماشہ بنتی رہے گی. کبھی اسی عورت ذات کو قحبہ خانوں کی زینت بنا کر جسم فروشی پر مجبور کردیا جاتا ہے تو کبھی امراء کے درمیان کوٹھوں پر مجرا کے لئے بیٹھا دیا جاتا ہے. مذکورہ تمام باتیں آج کے ترقی یافتہ سماج کا حصہ و خاصہ سہی لیکن کل کی باتیں کریں تو مصر کا وہ حسیناؤں کا بازار بھی ذہن میں در آتا ہے جب مصر کے ان بازاروں میں خوب صورت جوان حسیناؤں کو نیلام پر چڑھا دیا جاتا تھا. اسی مصر کے بازار سے حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخہ کے قصے بھی منسوب ہیں.
بات اگر ہمارے اپنے ملک ہندوستان کی کریں تو یہاں اونچی اور نیچی جاتیوں کے ساخشانے نے وہ دن بھی دکھایا جب شوہر کے انتقال پر اسی کی جلتی چتا پر اس کی بیوی کو ستی ہونے کے لئے بٹھا کر اسے خود کو نذر آتش ہونے کے لئے مجبور کردیا جاتا تھا. دیو مالائی اساطیر کا یہ المیہ بھی واضح ہے کہ معصوم بچیوں کو مندروں میں دان کردیا جاتا تھا اور یہ دان شدہ معصوم بچپن جوانی کی دہلیز پھلانگ کر بڑھاپا جھیلتے ہوئے زندہ در گورہو جاتا تھا. اس کے برعکس چودہ سو سال قبل کی باتیں کریں تو ظہور اسلام کے بعد یہ بھی ہوا کہ اسلام کی آمد سے قبل جب بچیوں کو پیدا ہونے کے بعد زندہ در گور کرنے کی رسم زندہ تھی لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجے گئے پیغمبر اسلام کے خدائی فرمان پر انسانوں کو واضح کیا گیا کہ عورت ذات میں نسل انسانی کو پروان چڑھانے کا مادہ عطا کیا گیا ہے اور عورت ذات کے قدموں تلے جنت ہے. اس لئے عورت ذات کی تحفظ و بقاء میں, پرورش و پرداخت میں ہر ممکن کوشش کر لی جائے لیکن یوں زندہ در گور نہ کیا جائے. اسلام کا یہ واضح پیغام جہاں جہاں بھی پہنچا دنیا اسی پر عمل پیرا ہو کہ سرخرو قرار پائی. آج بھلے ہی دنیا عالمی سطح پر یوم خواتین کا ہنگامہ برپا کئے ہو لیکن آج کی یہ دنیا نقاش ازل کے اس پیغام کو بھول بیٹھی ہے جس نے اپنے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ نسل انسانی کو پروان چڑھانے والی عورت ذات کی تحریم و تکریم کو اول درجہ دیا جائے. اسے نمائش کا ذریعہ نہ بنایا جائے. آج سال بہ سال 8 مارچ کو عالمی پیمانےپر منائے جانے والے یوم خواتین کے دوران جن کے نام سے یہ دن منسوب ہے انھیں ہی نیم برہنہ محفلوں کی زینت بنایا جائے گا. شرم و حیا کا سارا لبادہ نوچ پھنیکا جائے گا. اس کے گلے میں بدنامیوں کا طوق ڈال کر اسے قحبہ خانوں کی زینت بنایا جائے گا. کوٹھوں پر نچوایا جائے گا.ہو سکتا ہے کہیں اس کی اجتماعی عصمت ریزی کا واقعہ بھی منظر عام پر آ جائے. مذکورہ تمام باتیں عورت سے ہی منسوب ہیں لیکن اسے اس مقام پر پہنچانے کا سبب اور ذمہ دار مرد ذات ہی کہلائے گی کیونکہ وہی اسے زرداروں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا کر عورت ذات کی بربادی کا سامان بہم کر دیا کرتا ہے. اس حقیقت سے کوئی مفر یا انکار ممکن نہیں کہ
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
اس لئے اے شریف انسانو! کب تک ؟آخر کب تک ؟؟یوم خواتین کی آڑ میں عورت ذات کی ہی تذلیل کا سامان کرتے رہو گے. کب تک عورت ذات کو استعمال کی شئے بنا کر اسے نیم برہنہ نمائش میں کھڑا کرتے رہو گے.کب تک آخر کب تک نمائش پسندی کا یہ چلن پروان چڑھتا رہے گا. اگر آج کا انسان عورت ذات کی عزت و تکریم کا سامان مہیا نہیں کر سکتا تو اس کی تذلیل سے باز رہے ورنہ باہر کی یہ آگ اس کے گھروں تک در آئے گی جس میں سارا سماج و معاشرہ بے شرمی کی آگ میں جل کر بھسم ہو جائے گا. اس لئے اے شریف انسانو تم پر واجب ہے کہ اس طرح عورت ذات کی تذلیل سے باز آ جاؤ ورنہ تمہاری آنے والی نسلوں کی نسلیں بے نام و ننگ ٹھہریں گی. اس لئے اے شریف انسانو ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈالو اور لمحہ بھر سوچو کے تم نے عورت ذات کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے. کیوں اسے اپنی تسکین کا سامان بنا رکھا ہے. کیوں اسے زر داروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی طرح ناچنے پر مجبور کئے ہوئے ہو. کیا یہی دنیا کا دستور ہے. کیا یہی مہذب سماج و معاشرہ کے اصول و ضوابط ہیں. کیا تم بھول گئے اسلاف کے وہ نقوش تابندہ جنھوں نے عورت اور مرد کو گاڑی کا دو پہیہ قرار دیا تھا. سال بہ سال یوم خواتین کا انعقاد کرنے والے آج یہ تہیہ کر لیں کہ آج کے بعد وہ خواتین کی عصمت و عفت کی محافظت کے ذمہ دارانہ فرائض کی انجام دہی کو مقدم جانیں گے. یہی عالمی یوم خواتین کے موقع پر خواتین کے لئے بہتر ترین خراج تحسین اور انعام و اکرام ہوگا.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں