جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی
۔یہ صرف تباہیاں اور بربادیاں لے کر آتی ہے ۔آپ سبھی جانتے ہیں کہ پچھلے ایک ہفتے سے روس اور یوکرین کے مابین جنگ چھڑی ہوئ ہے روس ایک طاقت ور ملک ہے اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی ،تباہ کن میزائلوں کا انبار ہے دنیا کو تباہ کرنے والے بم بھی زیادہ مقدار میں موجود ہیں دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت بھی روس کے پاس ہے اور روس کے مقابلے میں یو کرین مشرقی یورپ کا ایک بڑا ملک ہے جو رقبہ کے اعتبار سے روس کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جس کی سرحدیں مشرق شمال مشرق سے ملتی ہیں ۔یوکرین کی سرحدیں شمال میں بیلا روس اور مغرب میں پولینڈ ، سلواکیہ اور ہنگری ،جبکہ جنوب میں رومانیہ اور مالدووا سے ملتی ہیں،مگر فوجی طاقتوں ہتھیاروں اور میزائیلوں کا حال یہ ہے "اونٹ کے مجھ زیرہ" ۔
روس نے جمعرات کی صبح مشرقی یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے اور روس کے اس اقدام پر مغربی ممالک ناراض ہیں اور اب تک کئی پابندیوں کا اعلان کر چکے ہیں۔
جاپان اور آسٹریلیا بھی ’روسی جارحیت‘ کے خلاف مغربی ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ بہت سے دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن بیانات دے رہے ہیں۔مگر روس پر یوکرین کو تباہ و برباد کرنے کا جنون سوار ہے ۔ اقوام متحدہ لا چار اور بے بس نظر آرہی ہے ۔
توشویناک مسئلہ یہ ہے یوکرین میں بیس ہزار سے زائد نوجوان طلبہ جو بھارت کا تابناک مستقبل ہیں ۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مقیم ہیں ان ہو نہار طلبہ کی جان خطرے میں ہے۔ ان کے اہل خانہ سفارت خانوں کے چکر کاٹ رہے ہیں حکومت سے التجائیں کر رہے ہیں اور حکومت انتخابات کے داؤں پینچ میں الجھی ہوئ ہے ۔بہ مشکل صرف دوہزار کے قریب طلبہ بڑی دقتوں کو جھیلتے ہوے وہاں سے رومانیہ کے راستے واپس آسکے ہیں ۔مگر ان اٹھارہ ہزار طلبہ کا کیا ہوگا جو بے یار و مددگار یوکرین کی سرحدوں پر کڑاکے کی سردی میں اپنے ملک واپس آنے کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ یوکرین میں پڑھ رہے دو ڈاکٹر طالب علموں کی موت ہو چکی ہے طلبہ رو رہے ہیں گڑگڑا رہے ہیں ۔انہیں بھارت کی طرف سے کوئ مدد نہیں پہنچ رہی ہے ۔آخر بھارت کی حکومت نے ایسا کیا کیا؟ کہ یوکرین کے پڑوسی ملک پولینڈ نے بھارت کے طلبہ و طالبات کو اپنی سرحد میں داخل ہونے سے منع کر دیا ۔ باہر ممالک میں موجودہ حکومت کے وزیر اعظم کی اتنی عزت تھی وہ کہاں گئ ؟ کیا موجودہ حکومت کی وزارت خارجہ کی حکمت عملی پوری طرح ناکام نہیں ؟ یہ نوجوان طلبہ نہ صرف اپنے خاندان کے روشن چراغ ہیں بلکہ بیماریوں کے دشمن اور بیماروں کے مسیحا بھی ہیں جو لاکھوں لو گوں کی جان بچاتے ہیں انہیں ہی مرنے کے لئے حکومت نے شاید چھوڑ دیا ہے ۔کیونکہ الیکشن زیادہ ضروری ہے صاحب حکومت اور نیشنل میڈیا دعوے کر رہی ہے کہ طالب علموں کو مدد پہنچا ئ جا رہی ہے ، پڑوسی ملکوں سے بات چیت جاری ہے ۔ سرحدوں پر بھارت کے افسران منتظر ہیں، گاڑیاں کھڑی ہیں مگر یہ سب جھوٹ ہے یوکرین سے جو طلبہ و طالبات ویڈیو بھیج رہے ہیں وہ درخواستیں کر رہے ہیں کہ میرے وطن کے لوگوں میری ویڈیوز شئیر کیجئے بھارت میں احتجاج کیجئے وزیراعظم کو بتائیے کہ ان کے نوجوانوں طالب علموں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک ہو رہا ہے یوکرین کی پولس لوہے کے راڈ سے بلاتفریق مؤنث،مذکر پیٹ رہی ہے ۔پولینڈ اپنی سرحد میں بھارت کے طلبہ و طالبات کو داخل نہیں ہونے دے رہا ہے ،ذلتوں کا سامناہے ،کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔ سفارت خانے کی ہیلپ لائن نمبر سے کوئ بات کرنے کو تیار نہیں ۔ کھلے آسمان میں اٹھارہ ہزار نوجوان بے یار و مددگار بھارت کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ویڈیوز دیکھ اور سن کر کلیجہ منہ کو آرہا ہے مگر حکومت کے لئے سب چنگا ہے جی الیکشن جیتنا زیادہ ضروری ہے ۔ یوکرین کے صدر نے اپنی عوام کے لئے خود ہتھیار اٹھا لئے مگر بھارت کے صدر ،وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کیا کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ آخر پہلے ہی ان نوجوانوں کو بلایا کیوں نہیں لیا گیا ؟ سفارت خانے کی جانب سے ایک مشورہ دیا گیا تھا کہ جن طالب علموں کو بھارت جانا ہو چلے جائیں ۔ مگر وہ طلبہ زیادہ تر میڈیکل کے طالب علم ہیں اپنی پڑھائ اور پیشے کی مسیحائ کے لئے سنجیدہ تھے اپنے کالج یونیورسٹی سے طلبہ آن لائن تعلیم کی سہولیات مانگ رہے تھے مگر 24 فروری تک یوکرین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاس کی سہولت نہیں دی ۔مگر بھارت کی وزارت خارجہ نے اس معاملے میں طالب علموں کی کوئ مدد نہیں کی تعلیمی اداروں سے کوئ سفارش نہیں کی ۔ہماری موجودہ حکومت اور محترم مودی جی ، وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھارت کی عوام اور بھارت کے نوجوان طالب علموں کے لئے کتنی سنجیدہ اور ذمہ دار ہے ؟ یہ کڑوا سچ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بھارت کے وزراء یوکرین کے طلبہ کو مدد نہیں پہنچا سکے مگر میرٹھ کا رہنے والا ایک مسلم نوجوان عالمگیر جو ماضی میں یوکرین سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر چکا ہے ۔وہ مسلم نوجوان جس پر بھارت جتنا بھی فخر کرے کم ہے اپنے وسائل سے اپنی شناخت سے یوکرین میں پھنسے ہوئے نوجوان طلبہ کی دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے بلا تفریق مذہب و ملت مدد فراہم کرا رہا ہے ،کھانا رہنا ،ٹکٹ فلائٹ ہر طرح کی مدد پہنچا کرمیرٹھ کے عالمگیر نے یہ بتا دیا ہے کہ حکومت کتنی بھی نفرت بوے انسانیت کا نرم و نازک اور حساس پودھا نفرت کے خاردر درخت کو مٹا دے گا ۔ آر ایس ایس کی شر پسند تنظیمیں مذہبی منافرت میں گھر واپسی کرا تے کراتے انسانوں کی جان لے لیتی ہیں مگر ایک گھر واپسی کے بارے میں بتاتی ہوں بھارت کے اتر پردیش کے ہاپوڑ کا رہنے والا فیصل نے یوکرین سے آنے والی اپنی فلائٹ چھوڑ دی کیونکہ فیصل کے دوست کمل سنگھ راجپوت کو ٹکٹ نہیں مل سکا تھا اس دوستی کو سلام کرتی ہوں میں جس جذب کو مٹانے پر بی جےپی اور آرایس ایس کمر بستہ ہیں جنہیں مسلمانوں کی ہر چیز سے نفرت ہے انہیں یہ انسانیت ، یہ محبت یہ دوستی اور وفاداری کوئ معنی نہیں رکھتی مگر میں سمجھتی ہوں انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے ۔میری گذارش ہے کہ جو بھی مدد کر سکتا ہے کرے ۔احتجاج کیجئے،شور مچائے تاکہ حکومت الیکشن کے نشے باہر آسکے۔
ڈاکٹر کہکشاں عرفان
Dr.kahkashanirfan1980@gmail. com
روس نے جمعرات کی صبح مشرقی یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے اور روس کے اس اقدام پر مغربی ممالک ناراض ہیں اور اب تک کئی پابندیوں کا اعلان کر چکے ہیں۔
جاپان اور آسٹریلیا بھی ’روسی جارحیت‘ کے خلاف مغربی ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ بہت سے دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن بیانات دے رہے ہیں۔مگر روس پر یوکرین کو تباہ و برباد کرنے کا جنون سوار ہے ۔ اقوام متحدہ لا چار اور بے بس نظر آرہی ہے ۔
توشویناک مسئلہ یہ ہے یوکرین میں بیس ہزار سے زائد نوجوان طلبہ جو بھارت کا تابناک مستقبل ہیں ۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مقیم ہیں ان ہو نہار طلبہ کی جان خطرے میں ہے۔ ان کے اہل خانہ سفارت خانوں کے چکر کاٹ رہے ہیں حکومت سے التجائیں کر رہے ہیں اور حکومت انتخابات کے داؤں پینچ میں الجھی ہوئ ہے ۔بہ مشکل صرف دوہزار کے قریب طلبہ بڑی دقتوں کو جھیلتے ہوے وہاں سے رومانیہ کے راستے واپس آسکے ہیں ۔مگر ان اٹھارہ ہزار طلبہ کا کیا ہوگا جو بے یار و مددگار یوکرین کی سرحدوں پر کڑاکے کی سردی میں اپنے ملک واپس آنے کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ یوکرین میں پڑھ رہے دو ڈاکٹر طالب علموں کی موت ہو چکی ہے طلبہ رو رہے ہیں گڑگڑا رہے ہیں ۔انہیں بھارت کی طرف سے کوئ مدد نہیں پہنچ رہی ہے ۔آخر بھارت کی حکومت نے ایسا کیا کیا؟ کہ یوکرین کے پڑوسی ملک پولینڈ نے بھارت کے طلبہ و طالبات کو اپنی سرحد میں داخل ہونے سے منع کر دیا ۔ باہر ممالک میں موجودہ حکومت کے وزیر اعظم کی اتنی عزت تھی وہ کہاں گئ ؟ کیا موجودہ حکومت کی وزارت خارجہ کی حکمت عملی پوری طرح ناکام نہیں ؟ یہ نوجوان طلبہ نہ صرف اپنے خاندان کے روشن چراغ ہیں بلکہ بیماریوں کے دشمن اور بیماروں کے مسیحا بھی ہیں جو لاکھوں لو گوں کی جان بچاتے ہیں انہیں ہی مرنے کے لئے حکومت نے شاید چھوڑ دیا ہے ۔کیونکہ الیکشن زیادہ ضروری ہے صاحب حکومت اور نیشنل میڈیا دعوے کر رہی ہے کہ طالب علموں کو مدد پہنچا ئ جا رہی ہے ، پڑوسی ملکوں سے بات چیت جاری ہے ۔ سرحدوں پر بھارت کے افسران منتظر ہیں، گاڑیاں کھڑی ہیں مگر یہ سب جھوٹ ہے یوکرین سے جو طلبہ و طالبات ویڈیو بھیج رہے ہیں وہ درخواستیں کر رہے ہیں کہ میرے وطن کے لوگوں میری ویڈیوز شئیر کیجئے بھارت میں احتجاج کیجئے وزیراعظم کو بتائیے کہ ان کے نوجوانوں طالب علموں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک ہو رہا ہے یوکرین کی پولس لوہے کے راڈ سے بلاتفریق مؤنث،مذکر پیٹ رہی ہے ۔پولینڈ اپنی سرحد میں بھارت کے طلبہ و طالبات کو داخل نہیں ہونے دے رہا ہے ،ذلتوں کا سامناہے ،کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔ سفارت خانے کی ہیلپ لائن نمبر سے کوئ بات کرنے کو تیار نہیں ۔ کھلے آسمان میں اٹھارہ ہزار نوجوان بے یار و مددگار بھارت کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ویڈیوز دیکھ اور سن کر کلیجہ منہ کو آرہا ہے مگر حکومت کے لئے سب چنگا ہے جی الیکشن جیتنا زیادہ ضروری ہے ۔ یوکرین کے صدر نے اپنی عوام کے لئے خود ہتھیار اٹھا لئے مگر بھارت کے صدر ،وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کیا کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ آخر پہلے ہی ان نوجوانوں کو بلایا کیوں نہیں لیا گیا ؟ سفارت خانے کی جانب سے ایک مشورہ دیا گیا تھا کہ جن طالب علموں کو بھارت جانا ہو چلے جائیں ۔ مگر وہ طلبہ زیادہ تر میڈیکل کے طالب علم ہیں اپنی پڑھائ اور پیشے کی مسیحائ کے لئے سنجیدہ تھے اپنے کالج یونیورسٹی سے طلبہ آن لائن تعلیم کی سہولیات مانگ رہے تھے مگر 24 فروری تک یوکرین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاس کی سہولت نہیں دی ۔مگر بھارت کی وزارت خارجہ نے اس معاملے میں طالب علموں کی کوئ مدد نہیں کی تعلیمی اداروں سے کوئ سفارش نہیں کی ۔ہماری موجودہ حکومت اور محترم مودی جی ، وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھارت کی عوام اور بھارت کے نوجوان طالب علموں کے لئے کتنی سنجیدہ اور ذمہ دار ہے ؟ یہ کڑوا سچ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بھارت کے وزراء یوکرین کے طلبہ کو مدد نہیں پہنچا سکے مگر میرٹھ کا رہنے والا ایک مسلم نوجوان عالمگیر جو ماضی میں یوکرین سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر چکا ہے ۔وہ مسلم نوجوان جس پر بھارت جتنا بھی فخر کرے کم ہے اپنے وسائل سے اپنی شناخت سے یوکرین میں پھنسے ہوئے نوجوان طلبہ کی دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے بلا تفریق مذہب و ملت مدد فراہم کرا رہا ہے ،کھانا رہنا ،ٹکٹ فلائٹ ہر طرح کی مدد پہنچا کرمیرٹھ کے عالمگیر نے یہ بتا دیا ہے کہ حکومت کتنی بھی نفرت بوے انسانیت کا نرم و نازک اور حساس پودھا نفرت کے خاردر درخت کو مٹا دے گا ۔ آر ایس ایس کی شر پسند تنظیمیں مذہبی منافرت میں گھر واپسی کرا تے کراتے انسانوں کی جان لے لیتی ہیں مگر ایک گھر واپسی کے بارے میں بتاتی ہوں بھارت کے اتر پردیش کے ہاپوڑ کا رہنے والا فیصل نے یوکرین سے آنے والی اپنی فلائٹ چھوڑ دی کیونکہ فیصل کے دوست کمل سنگھ راجپوت کو ٹکٹ نہیں مل سکا تھا اس دوستی کو سلام کرتی ہوں میں جس جذب کو مٹانے پر بی جےپی اور آرایس ایس کمر بستہ ہیں جنہیں مسلمانوں کی ہر چیز سے نفرت ہے انہیں یہ انسانیت ، یہ محبت یہ دوستی اور وفاداری کوئ معنی نہیں رکھتی مگر میں سمجھتی ہوں انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے ۔میری گذارش ہے کہ جو بھی مدد کر سکتا ہے کرے ۔احتجاج کیجئے،شور مچائے تاکہ حکومت الیکشن کے نشے باہر آسکے۔
ڈاکٹر کہکشاں عرفان
Dr.kahkashanirfan1980@gmail.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں