حجاب و پردہ قرآن و حدیث کے آئینہ میں
مفتی شفیع احمد ( خادم التدريس جامعہ ابن عباس، احمد آباد)
8090063071
کچھ دنوں قبل کرناٹک میں حجاب سے متعلق ایک چنگاری اٹھی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک عزیز کے کئی صوبوں میں شعلہ جوالہ بن کر پھیل گئی، ملک بھارت ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ہرکمیونٹی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل اجازت ہے، ہر اقلیت کو اپنے دین دھرم پر چلنے کی سنودھان نے اجازت دی ہے، یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے، یہاں کی ہرکمیونٹی دوسری کمیونٹیوں کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں، ہر مذہب کے ماننے والے لوگ دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ تکریم و احترام کرتے آئے ہیں، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب ضرب المثل رہی ہے، یہاں کی تہذیب و کلچر قابل رشک تھی، لیکن لگتا ہے کہ اب چند سالوں سے اس سنہری تہذیب کو کسی کی نظربد لگ گئی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن اکثریت کے کچھ انتہا پسند عناصر کی طرف سے ایک خاص کمیونٹی کی بابت زہر اگلا جارہا ہے، کبھی آقائے نامدار کی شان اقدس میں گستاخی کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، تو کبھی لاڈسپیکر پر اذان کا مدعا اٹھایا جاتا ہے، کبھی کتاب الہی سے چھبیس آیتوں کے نکالنے کی مانگ کی جاتی ہے، تو کبھی زور شور کے ساتھ حجاب کے مسئلہ کو ہوا دیا جاتا ہے، اس وقت ہر چوک چوراہے اور گلی کوچے میں یہی بحث و تبصرہ ہے اخباروں میں اسی کی سرخی لگ رہی ہے، ٹی وی ڈبیٹ پر اس مسئلہ کو لیکر جنگ چھڑی ہوئی ہے، اور حیرت تب ہوتی ہے، جب ٹی وی ڈبیٹ پر بیٹھ کر کوئی قوانین اسلام سے نابلد نام نہاد مسلمان یہ کہتا ہے، قرآن میں حجاب کا حکم کہاں ہے ؟ اسی طرح وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والی بارھویں کی ٹاپر ایک مسلم خاتون پردہ کے خلاف بیان دیتی ہے، اور اسلام اور قوانین اسلام کے جاننے کا دعویٰ بھی کرتی ہے، تو ایسے میں بے ساختہ زبان پر یہ شعر آتا ہے،
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
سب سے پہلے ہم ان جیسے خام اور سطحی علم رکھنے والوں کے لئے یہ صاف اور واضح کردینا چاہتے ہیں کہ حجاب و پردہ کا حکم یہ کسی مولوی کا اجتہاد اور کسی مفتی کا فتویٰ نہیں ہے، بلکہ قرآن پاک کے نص قطعی سے یہ حکم ثابت ہے، اور اس میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کہ مسلم عورتوں کو اجنبی مردوں سے کس طرح حجاب ضروری ہے، اور اپنے محارم کے ساتھ کس قدر پردہ کرنا لازم ہے، تو آئیے! آپ کے سامنے مسئلہ حجاب کو قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی قدر تفصیل سے پیش کرتے ہیں،
قرآن وحدیث میں حجاب کے تین درجے بیان کئے گئے ہیں، ادنیٰ، اوسط، اعلیٰ، اول؛ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا سورۃ النور؛ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ عورتیں اپنے زینت کے مواقع کا اظہار نہ کریں، مگربدن کا وہ حصہ جو غالباً کھلا ہی رہتا ہے، اس کی تفسیر ابو داؤد شریف کی حدیث میں یوں وارد ہے کہ یا اسماء! ان المراۃ إذا بلغت المحیض لم تصلح ان یری منھا إلا ھذا وھذا؛ وأشار الی وجہہ وکفیہ حدیث پاک کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا اے اسماء! عورت جب بالغ ہوجائے تو اجنبی مردوں کے سامنے سوائے اس عضو اور اس عضو کے اس کا کھولنا جائز نہیں ہے، اور نبی مکرم نے اس سے اپنے چہرہ اور ہتھیلی کیطرف اشارہ کیا، فقہاء کرام نے دونوں قدم کو اسی حکم میں داخل کیا ہے، اور یہاں زینت سے مراد تمام بدن ہے، تو حاصل اس کا یہ ہوا کہ بجز چہرہ ہتھیلی اور دونوں قدم کے تمام بدن کا چھپانا ضروری ہے، اور یہ حجاب کا ادنیٰ درجہ ہے،
دوم؛ یدنین علیھن من جلابیبھن سورۃ أحزاب؛ آیت پاک کا ترجمہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے اوپر چادریں ڈال لیا کریں، مشکوۃ شریف میں بخاری و مسلم کے حوالے سے ایک روایت میں وارد ہے، ایک عورت نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو وہ عید کیلئے کیوں کر نکلے گی، آپ نے فرمایا؛ اس کے ساتھ والی عورت اپنی چادر اس کو اوڑھا دے، اسی طرح ابو داؤد شریف کی ایک روایت میں وارد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا؛ عورت اپنی ازار کو پنڈلی سے ایک بالشت نیچے لٹکالے، اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا، کہ اس صورت میں تو اس کے پیر کھلے رہیں گے، آپ نے فرمایا؛ تو ایک ہاتھ نیچےلٹکالے، خلاصہ اس کا یہ ہے کہ چہرہ ہتھیلی اور دونوں قدم سمیت تمام بدن کا حجاب لازم و ضروری ہے، اجنبی مردوں کے سامنے اپنے کسی عضو کا کھولنا جائز نہیں ہے، اور یہ اوسط درجہ کا پردہ ہے،
سوم؛ وقرن فی بیوتکن اے بیبیو ! تم اپنے گھروں میں رہا کرو،؛ سورۃ احزاب؛ ایک دوسری آیت میں ہے، وإذا سالتموھن متاعا فاسئلوھن من وراء حجاب أحزاب؛ اور جب تم ان عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کی آڑ سے مانگو؛ حدیث شریف میں وارد ہے، ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنھما بیٹھی تھیں، اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم آئے، اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا؛ ان سے پردہ کرو، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ یہ تو ہمیں دیکھ نہیں سکتے، آپ نے فرمایا؛ افعمیاوان انتما؟ کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم بھی نہیں دیکھ سکتی ہو؟ اور پردہ کا یہ اعلیٰ مرتبہ ہے،
ان سب آیات وأحاديث سے حجاب و پردہ کے تینوں درجوں کا وجوب ثابت ہوگیا، البتہ ان میں فرق مراتب ضرور ہے، کہ پہلا درجہ اپنی ذات کی وجہ سے واجب ہے، اور دوسرا، تیسرا درجہ کسی عارض کی وجہ سے واجب ہے ، پس پہلا درجہ چونکہ اپنی ذات کی وجہ سے واجب ہے، لہذا جوان اور بوڑھی ساری عورتوں کیلئے حکم یکساں ہے، اور وہ یہ کہ اجنبی مرد کے سامنے بجز چہرہ اور ہتھیلی کے کسی عضو کا کھولنا جائز نہیں ہے، اور دوسرے تیسرے درجے کے وجوب کا مدار چونکہ عارض پر موقوف ہے، تو جہاں عارض پایا جائے گا ، وہاں واجب ہوگا، اور جہاں عارض نہیں ہوگا تو حجاب اور پردہ کا وجوب بھی نہیں ہوگا، اور وہ عارض اندیشہ فتنہ ہے، جس کی دلیل قرآن پاک کی یہ آیت ہے؛ فیطمع اللذی فی قلبہ مرض؛ ترجمہ؛ پس جس کے دل میں روگ ہے وہ ہوس کریگا، اور حدیث پاک کا یہ ٹکڑا ہے استشرفھا الشیطان ؛ شیطان اس کو تکتا ہے، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ اندیشہ فتنہ کہاں ہے اور کہاں نہیں، یہ ہمیں نہیں طے کرنا ہے، بلکہ یہ بھی رب کائنات نے بتادیا ہے، قرآن کہتا ہے، والقواعد من النساء اللتی لایرجون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجات بزینۃ وان یستعففن خیر لھن ترجمہ؛ اور بڑی بوڑھی عورتیں جن کو نکاح کی کچھ امید نہ رہی ہو، ان کو اس بات میں کوئی گناہ نہیں، کہ وہ اپنے زائد کپڑے اتار لیں ( جن سے چہرہ وغیرہ چھپایا جاتا ہے) مگر یہ کہ وہ مواقع زینت کا اظہار نہ کریں اور اس سے بھی احتیاط رکھیں تو بہتر ہے؛
خلاصہ اس یہ ہے کہ بوڑھی عورت مواقع زینت کا اظہار تو نہیں کرسکتی، اور زینت سے مراد تمام بدن ہے، البتہ چہرہ اور ہتھیلی کھولنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اس آیت نے صاف بتا دیا کہ فتنہ کا اندیشہ صرف بوڑھی عورت میں نہیں ہے، لہذا وہ اجنبی مرد کے سامنے اپنے زائد کپڑے اتار سکتی ہے، یعنی چہرہ اور ہتھیلی کھول سکتی ہے، باقی جوان اور ادھیڑ عمر عورت تو چونکہ ان میں فتنہ کا اندیشہ موجود ہے یہ ہمیں قرآن نے بتایا ہے،
لہذا غیر محارم کے سامنے ان کے کسی عضو کا کھولنا جائز نہیں ہوگا،ہندو مذہب میں بھی پردہ کا تصور موجود ہےہندو مذہب کی کتاب میں یہ قصہ بہت معروف ہے، کہ رام کی چہیتی بیوی سیتا کو جب راون لے بھاگا، تو رام اس کی تلاش وجستجو میں کافی پریشان ہوا، اور کئی جگہوں کی خاک چھانی، تاہم وہ اس کے پانے میں ناکام رہا، بالآخر اپنے بھائی لکشمن سے مدد کی گوہار لگائی، کہ سیتا کی تلاش میں وہ اس کا تعاون کرے، لکشمن نے کہا، بھائی میں اسے کیسے ڈھونڈ سکتا ہوں، جبکہ میں نے کبھی اسے دیکھا ہی نہیں ہے، بالآخر لکشمن بھی تلاش میں نکلا، تو اس نے سیتا کو پیر کے پازیب سے پہچانا ،
تصور کیجئے، ہندو مذہب میں بھی پردہ کا کس قدر عمدہ نظام تھا، کہ بھائی اپنے بھائی کی بیوی تک کو نہیں دیکھ سکتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے مذاہب میں بھی نقاب و پردہ کا خاص اہتمام کیا گیا تھا، تاکہ بے پردگی کے دور رس اور سنگین نتائج سے بچا جا سکے، اللہ ہی ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں