src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> حجاب کے پیچھے اسلام دشمنی صاف نظر آرہی ہے۔ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعرات، 24 فروری، 2022

حجاب کے پیچھے اسلام دشمنی صاف نظر آرہی ہے۔


حجاب کے پیچھے اسلام دشمنی صاف نظر آرہی ہے۔


کسی درسگاہ وہ بھی پری یونیورسٹی کالج جہاں عموما یونیفارم نہیں ہوتے ہیں  طلبہ و طالبات ہر قسم کے لباس معاشرتی اخلاقیات کو مد نظر رکھتےہوے زیب تن کرتے ہیں،  پھر وہ ہندوستان کا لباس ساڑی اور دھوتی کرتا، یا شلوار قمیض اور کرتا پاجامہ یا پھر مشرقی تہذیب کا انگریزی لباس شرٹ، پینٹ ،کوٹ ٹائی ، جینز ٹاپ یا ریاستی کلچر ،تہذیب و ثقافت کے مطابق  لباس یا پھر اسلامی تہذیب کا  نقاب اور حجاب صنف نازک  کے جسم اور ان کے اعضاء کی حفاظت کرتا ہوا ، ان کے حسن اور پاکیزگی پاکیزگی کو دنیا کی بری اور غلیظ نگاہو ں سے بچاتا ہوا  ایک پر وقار ، لباس حجاب پر سوال اٹھانا صرف الیکشن اور ووٹوں کے پو لرائزیشن کے لئے ہے ؟ کیا یہی سچ ہے؟

اکثر و بیشتر لوگ کرناٹک کے اوڈوپی ضلع کے کالج میں  پابندئ  حجاب  کو بھارت میں ہو رہے  انتخابات اور ووٹوں کے پو لرائزیشن کے آئینے میں دیکھ اور سمجھ رہے ہیں ۔مگر میری ناقص عقل یہ ماننے کو تیار نہیں میری نظر آرایس ایس کے افکار و خیالات پر ہے جو مساوات کے خلاف ہیں  جو جمہوریت کے خلاف۔ہیں جو انسانیت اور اسلام کے خلاف ہیں ۔آپ غور کریں اور صرف چار پانچ سال کے واقعات اور حادثات اور تاریخ مے اوراق کو الٹ پلٹ کر دیکھیں ۔  چار  سال پہلے بھارت کے مشہور و معروف گلوکار سونو نگم کو  فجر کی اذان اور بالخصوص لاؤڈ اسپیکر سے اذان ہونے سے پریشانی ہو نے لگی تھی کیونکہ ان کی نیند میں خلل پڑنے لگا تھا۔اس کے بعد  اسی سال مارچ کے مہینے میں اتر پردیش کے ایک وزیر جن کا نام آنند  سوروپ شکلا ہے اس وزیر کو بھی اذان سے بہت پریشانی ہونے لگی تھی  آنند سروپ شکلا نے اتر پردیش کے ضلع بلیا کے مجسٹریٹ کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ ان کے علاقے میں پورے دن اذان ہوتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں یوگا، پوجا اور دفتری امور میں خلل پڑتا ہے۔

انہوں نے ریاستی اسمبلی کے اپنے حلقے قاضی پورہ کی ایک مسجد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مسجد کے اطراف میں متعدد اسکول ہیں اور اذان سے طلبہ کی تعلیم پر برا اثر پڑتا ہے۔کتنی عجیب بات ہے ان لوگوں کو زنا بالجبر سے کوئ فرق نہیں پڑتا، قتل سے کوئ تکلیف نہیں ہوتی ،شراب سے کسی وزیر کی صحت خراب نہیں ہوتی ،جھوٹ ،چوری،بے ایمانی، جرائم سے ان کی صحت خراب نہیں ہوتی ہندو مذہب کے بھجن ،کیرتن ،جگ راتے ،مندر کے گھنٹے کی ٹن ٹن اور۔ہولی کے دھمال سے پریشانی نہیں ہوتی ،صوتی آلودگی بھی نہیں ہوتی سماج کا ماحول بھی خراب نہیں ہوتا  ،سر میں درد  بھی نہیں ہوتا مگر مسلمانوں کی اذان سے نیند خراب ہونے لگتی ہے مسلمانوں کی نماز سے پریشانی ہوتی ہے ،مسلمانوں کی  تبلیغ  سے پریشانی ،مسلمانوں کے مدارس سے پریشانی، مسلمانوں کی کتاب سے پریشانی مسلمانوں کے وجود سے پریشانی،  جب سے آر ایس ایس نے ملک کی سیاست میں قدم جمایا ہے اس کو صرف ایک ہی مسئلہ نظر آتا ہے وہ ہے اسلام، مسلمان،قرآن،نماز،اذان  اس کے بعد ابھی کچھ ماہ پہلے یونیو رسٹی آف الہ باد کی پہلی خاتون شیخ الجامعہ یعنی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا شرواستو کی نیند بھی اذان فجر سے خراب ہونے لگی تھی اور سر میں درد ہونے کی شکایت انتظامیہ تک ہوگئ تھی الہ باد کے مسجد کی انتظامیہ اور امام صاحب نے  بہت تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا لاؤڈسپیکر کی آواز کم کردی گئ تھی  ،لاؤڈ اسپیکر کا رخ بھی تبدیل کر دیا گیا تھا  ، پروفیسر سنگیتا شرواستو کی تکلیف کو دیکھکر فجر کی اذان سے  بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر کے سر میں بھی درد ہونے لگا تھا ظاہر ہے "خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے"  اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھوپال سے  رکن پارلیمان  پرگیا سادھوی  مالے گاؤں بم دھماکوں کی ماسٹر مائنڈ ، اول نمبر کی تعصب پسند ،شر پسند جرائم  پسند خاتون کو بھی اذان فجر کی آواز سے تکلیف ہوتی ہے یہ عورت آر ایس ایس نامی  زعفرانی تنظیم  پروردہ سرگرم کارکن  ہے جس کے اوپر  ہمہ وقت آر ایس ایس کا ایجنڈا  ہندتوا سوار رہتا ہے ۔جو مہاتما گاندھی کے قاتل   گوڈسے کو ہیرو مانتی ہے جس نے ہیمنت کمار کرکرے جیسے محب وطن آفیسر کو غدار کہہ دیا پر گیا سادھوی نہیں قاتلہ ہے ہیمنت کر کرے کی ،پرگیا قاتلہ ہے بابری مسجد کی ،پرگیا قاتلہ ہے مالے گاؤں میں شہید ہونے والے بے گناہ لوگوں کی، پرگیا قاتل ہے جمہوریت کی ،انسانیت کی ،امن اور آشتی کی ،قومی یکجہتی کی ، پرگیا سادھوی بن کر زعفرانی لبادہ اوڑھ کر سادھوی بننے کا جو ڈھونگ رچاے بیٹھی ہے وہ جگ ظاہر ہے سادھو سنیاسی سیاست نہیں کرتے ،لگزری گاڑیوں اور پنچ ستارہ ہو میں  عیش   نہیں کرتے رام کا نام جپنے والے راون کی راہ پر نہیں چلتے  ،ستا کا بھوگ نہیں کرتے۔  سحر خیزی کے لئے تو ہندو شاستروں میں بھی  بہت زور دیا گیا  ہے کیا   پرگیا سادھوی نے ویدوں کو نہیں پڑھا ؟ کیا وہ ہندو شاستروں کے بارے میں نہیں جانتی ؟بی جے پی کے رہنماؤں کے دل ،دماغ اور زبان پر   اسلام،۔داعئ اسلام ، مسلمان ، قرآن، نماز ،اذان ، سے نفرت اور تعصب کا زہر اتر آیا ہے ۔بی جے پی رہنماؤں، اور وزیروں کے پاس ملک کی ترقی ،عوام کی ترقی کے لئے کوئ لائحہ عمل موجود نہیں اس لئے وہ کریں بھی تو کیا بھجن کیرتن اور مندر میں بجتےگھنٹوں کو بند کرا نہیں سکتے کیونکہ  آخر انہیں اس بڑے جمہوری بھارت کو ہندوتوا کا مکٹ بھی تو پہنانا ہے ۔ ہریانہ کے  گروگرام میں کئ ہفتوں تک  جمعہ کی نماز کا مسئلہ درپیش رہا وہاں کی انتظامیہ نے بہت سی مساجد پر تالے لگا رکھے ہیں ۔  گروگرام میں انتظامیہ نے جو زمین نماز کی ادائگی کے  مخصوص کی تھی اسے بھی  انتظامیہ نے زعفرانی تنظیموں کے ظلم کے خوف سے واپس لے لیا اور تو اور جس زمین پر نماز کی اجازت نہیں ملی اسی جگہ اسی زمین پر سرعام کھلم کھلا گووردھن پوجا کی گئی اور آر ایس ایس کی بائیس زعفرانی تنظیموں کے ارکین پوجا میں شامل ہوئے اب تو  آئین کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو حکومت چاہتی ہے ایسے شر پسند لوگ جس نے دہلی میں دنگا بھڑکایا جس نے دلی کو جلایا ،جس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی اس کے لئے یو اے پی اے نہیں ہے کپل مشرا کے لئے ،
سادھوی پرگیہ اور یتی نرسنمہانند کے لئے گرفتاری نہیں  ، یو اے ،پی اے نہیں،  مگر عمر کے لئے عبداللہ کے لئے کلیم کے لئے قانون بھی ہے اور گرفتاری بھی اس وقت جمہوریت کا ہر لمحہ  دھیرے دھیرے  گلا ریتا جا رہا ہے  ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ آر ایس ایس کے لوگوں کو حکومت گرفتار کر کے سزا کیوں نہیں دیتی ؟ کیا آر ایس ایس کے منچلے لونڈے یہ طے کرینگے کہ بھارت کے اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کیا پہنیں گے ؟ لڑکیاں کیسا لباس پہنیں گی ؟ کیا یہ آرایس ایس کی ہندو تنظیمیں اور ان کے بدکردار نوجوان طے کریں گے ؟ جب بھارت کے آئین کا آرٹیکل 25  تمام اقلیتوں کو بھارت کے اندر اپنے مذہب کی اطاعت  ، عبادت ،اشاعت ،تبلیغ ، تشہیر کی اجازت دیتا ہے تو پھر یہ زعفرانی غنڈے تعلیم گاہوں کے اندر اور باہر ایک خاص طبقہ کی لڑکی کو کیوں اور کیسے  ہراساں کرنے  پہنچ گئے ؟ یہ رام کے ماننے والے سینکڑوں کی تعداد میں تنہا  مسلم  لڑکی سے جبریہ  نقاب اور حجاب اتروانے پہنچ گئے ۔ اسلام اور مسلمان دشمنی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا ؟ یہ ہمارے وزیر اعظم نریندر بھائی مودی کا بھارت ہے جہاں اکیسویں صدی میں بھارت کو وشو گرو بننا چاہئے تھا وہاں ایک صنف نازک سے اس کا پردہ اتروانے کا انتظام کیا  جارہا ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے ہمارا بھارت دروپدی کے چیر ہرن والے دور میں چلا گیا. وزیر اعظم بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کے سلوگن بنا تے ہیں، سب کا ساتھ سب کا وکاس کی باتیں کرتے ہیں ، وہ وزیر اعظم نریندر بھائی کہاں ہیں؟ کرناٹک میں  بی جے پی کی حکومت ہے کیا سرکار کی کوئ ذمہ داری نہیں بنتی ؟ کہ وہ ان بیٹیوں کی آواز سین کے ان کو ان زعفرانی اور نفرت پھیلانے والے  غنڈوں سے  بچانے کا انتظام کریں۔ کیا مسلم خواتین کا  تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت، بالخصوص  حجاب و نقاب  کی مانگ کرنا تعلیمی ادارون میں حجاب پہننے کی حمایت میں  مسلم لڑکیوں کا احتجاج کرنا شدت پسندی کو پروان چڑھا نا ہے ؟ میں سمجھتی ہوں ہر گز نہیں آج کی عورت تعلیم یافتہ ہے ،باشعور ہے ، اپنے فرائض بھی جانتی ہے اور حقوق بھی۔ اگر عورت اپنا جسم ،اپنے بال ،اپنا سر اپنا چہرہ بھی بھی اگر نقاب یا حجاب سے چھپانا چاہتی ہے تو اس کا مطلب ہے ہے آج اکیسوصدی صدی میں  بھی عورت نے قرآن مجید کی  سورہ نور کی اس  آیت کو تھام رکھا ہے جس میں پردے کا حکم نازل ہوا۔
سچ تو یہ ہے کہ یبی جے پی ایک غیر جمہوری اور فرقہ پرست اور اسلام دشمن  پارٹی ہے جس کے وزرا سرعام جمہوریت کا خون کر رہے ہیں ۔دستور ہند کے آرٹیکل 25سے لے کر28تک مذہبی آزادی اور اس سے متعلق امور پر مبنی ہیں، جن میں آرٹیکل25کی اہمیت سب سے زیادہ ہے جس کے بارے میں ہر شہری کو جاننا ضروری ہے تاہم یہ آزادی شہریوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کے لیے بھی بنیادی حق کا درجہ رکھتی ہے۔ جب کہ آرٹیکل25کا دوسرا حصہ فرد واحد کو اپنے مذہب پر علی الاعلان مخصوص مذہبی شناخت و لباس کے ساتھ عمل کرنے، ذاتی و سماجی زندگی میں مذہبی رسومات و عبادات کو ادا کرنے نیز مذہبی تعلیمات کو عام کرنے کی پوری پوری آزادی فراہم کرتا ہے۔ اتر پردیش کا انتخاب نزدیک ہے  میرا التماس ہے کہ آپ تحمل اور برداشت اور فہم  سے کام لیں جذبات سے نہیں آئین کے ساے میں اپنے حقوق کی حفاظت کریں اپنے شہری ہونے اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرکے بی جے پی  نامی  اس مصیبت سے نجات کا راستہ تلاش کریں ۔بقول علامہ اقبال؂
منافرت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی جس کا نبی دین بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہ باتیں ہیں؟ 


ڈاکٹر کہکشاں عرفان
Dr.kahkashanirfan1980@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages