گوتم اڈانی کے اغواء کا ملزم ڈان، جس نے داؤد سے بھی تاوان کی رقم وصول کی تھی۔
انڈر ورلڈ میں فضل الرحمان عرف فضلو کا نام بھلے کسی کو یاد نہ ہو لیکن دو لوگ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ان دو لوگوں کے نام انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم اور معروف بزنس مین گوتم اڈانی ہیں۔ پوری خبر میں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔
بہار کے ساکن فضل الرحمان نے ابتدائی دور میں جب جرائم کی دنیا میں قدم رکھا تو وہ جمیل خان کے ساتھ کام کرتا تھا۔ جمیل کے ساتھ رہتے ہوئے، وہ اغواء کنگ ببلو سریواستو اور عرفان گوگا جیسے بڑے گینگسٹر کے رابطے میں آیا۔ فضلو نے عرفان گوگا کے قریب آنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
سال 1995 میں عرفان گوگا نے فضلو کو دبئی سے فون کیا اور بتایا کہ وہ داؤد کے بہنوئی حامد انتولے کو ہفتہ وصولی کے لیے فون کرنے والا ہے، اس لیے حیدرآباد جا کر تاوان کی رقم لے لو۔ جب فضلو نے حامد سے تاوان کی رقم ادا کرنے کو کہا تو اس نے داؤد کو فون کردیا۔ اس کے بعد داؤد نے اپنے بھائی انیس سے فضلو کو اس کام سے منع کرنے کو کہا۔ لیکن جب انیس نے فضلو سے بات کی تو اس نے کہا، 'میرا باس عرفان گوگا ہے، تم نہیں۔
جب فضلو نے کسی کی نہ سنی تو داؤد نے خود اسے 50 لاکھ روپے بھجوائے , تب جاکر کہیں حامد کا پیچھا چھوٹا۔ اس واردات کے تین سال بعد 1998 میں فضلو پر گاندھی نگر ہائی وے پر محمد پورہ کے پاس گوتم اڈانی کو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اغوا کرنے کا بھی الزام لگا۔ بتایا گیا کہ گوتم اڈانی نے خود کو آزاد کرانے کے لیے تقریباً 15 کروڑ روپے کا تاوان ادا کیا تھا۔ اس کے بعد فضلو 1998 میں دبئی چلا گیا ۔
2003 میں جب دبئی میں مافیاؤں کے خلاف مہم شروع کی گئی تو فضلو دبئی سے تھائی لینڈ فرار ہو گیا۔ فضلو زیادہ دن تھائی لینڈ میں نہیں رہا اور وہ نیپال آگیا اور پھر سال 2005 میں اس نے نیپال سے ہندوستان کا رخ کیا۔ یہاں فضلو نے بھتہ دینے سے انکار کرنے پر ایک تاجر کو گولی مار کر قتل کر دیا جس کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔
فضل الرحمان عرف فضلو کے جرائم کے پیش نظر اس پر مکوکا لگایا گیا اور پھر جیل بھیج دیا گیا۔ ایک زمانے میں اس کے انڈین مجاہدین کے لوگوں سے کچھ رابطے تھے، لیکن وہ کسی دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث نہیں تھا اور نہ ہی اس طرح کے کوئی الزامات اس پر ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں