src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> دو دھاری تلوار پر چل رہی ہے شیوسینا ، خود کو ہندوتوادی ثابت کرنے کا ہے مقابلہ ۔ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 29 جنوری، 2022

دو دھاری تلوار پر چل رہی ہے شیوسینا ، خود کو ہندوتوادی ثابت کرنے کا ہے مقابلہ ۔

 



 دو دھاری تلوار پر چل رہی ہے شیوسینا، خود کو ہندو توادی ثابت کرنے کا ہے مقابلہ ۔


 ممبئی : شیوسینا ان دنوں دو دھاری تلوار پر چل رہی ہے۔  وہ کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مل کر اپنی مہا وکاس اگھاڑی حکومت کی مدت بھی پوری کرنا چاہتی ہیں۔  ساتھ ہی اسے اگلے انتخابات میں بھی اپنے پرعزم کیڈر کو برقرار رکھنے کی فکر ہے۔  یہ کیڈر ہندوتوا کی بنیاد پر شیو سینا سے منسلک تھا۔  اسی لیے شیو سینا کے صدر اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اپنے کارکنوں کو یہ یاد دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ آج بھی وہ ہندوتوا سے نہیں ہٹے ہیں۔


   اس بار بھی اپنے والد اور شیو سینا کے بانی آنجہانی بالاصاحب ٹھاکرے کے 96ویں یوم پیدائش پر شیوسینکوں سے خطاب کرتے ہوئے، جو ہندو ہردئے سمراٹ کے نام سے مشہور ہیں، ادھو ٹھاکرے نے خود کو ایک حقیقی ہندوتوادی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک نئی ہندو توادی کے طور پر ثابت کرنے کے لیے بہت سی باتیں کہیں ۔  مثال کے طور پر، شیوسینا نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا کیونکہ وہ ہندوتوا کے لیے اقتدار چاہتی تھی۔  شیوسینا نے کبھی بھی ہندوتوا کو اقتدار کے لیے استعمال نہیں کیا۔  شیوسینا نے بی جے پی چھوڑی ہے، ہندوتوا نہیں۔  بی جے پی کا موقع پرست ہندوتوا صرف اقتدار کے لیے ہے۔


 بدقسمتی سے جب ادھو ٹھاکرے راہول گاندھی کے انداز میں 'ہندوتوا' اور 'ہندو توادی' کی تشریح کرکے خود کو بڑا 'ہندو' ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اسی وقت اپنی ریاست کے دارالحکومت ممبئی کے ایک کونے میں ایک اسپورٹس کمپلیکس کا نام میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کے نام پر رکھ جانے کا بورڈ لگایا  جارہا تھا۔  یہ اسپورٹس کمپلیکس ان کی کابینہ میں کانگریس کے کوٹے سے وزیر بنے   اسلم شیخ نے اپنے اسمبلی حلقہ مالونی میں بنایا ہے ، اور اس کا نام 'صدر ویر ٹیپو سلطان کرڈھا سنکول' رکھا ہے۔


 ادھو ٹھاکرے کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ان کے والد بالاصاحب ٹھاکرے نے اپنی زندگی میں اپنی ہی حکومت میں کسی پروجیکٹ کو ٹیپو سلطان کے نام پر رکھنے کی اجازت دی ہوگی؟  لیکن ایسا نہ صرف ہو رہا ہے بلکہ شیوسینا اسے ہونے دے رہی ہے۔  یہ اسی کانگریس کے ذریعہ  اپنے خاص ایجنڈے کے تحت کیا جاریا ہے، جس کے لیڈر بالا صاحب ٹھاکرے ان کی یوم پیدائش پر ان کے اعزاز میں ایک ٹوئیٹ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔  اس تبدیلی کو شیو سینا میں اوپر سے نیچے تک سبھی سمجھ رہے ہیں۔  نچلی سطح کا کارکن کانگریس-این سی پی سے بالکل بھی راضی نہیں ہے۔  اس کی ایک مثال ادھو کے کہے ہوئے ہندوتوا بیانات کے اگلے ہی دن بھی دیکھنے کو ملی، جب شیو سینا-بی جے پی کارکنوں نے اورنگ آباد میں دودھ یونین کے انتخابات میں ہاتھ ملایا اور کانگریس کو باہر کا راستہ دکھادیا۔  اتفاق سے یہ سارا کھیل وہاں شیوسینا کے کوٹے کے واحد مسلم وزیر عبدالستار کی قیادت میں منعقد ہوا۔  یعنی ادھو ٹھاکرے بھلے ہی اپنی کرسی بچانے کے لیے کانگریس-این سی پی کے ساتھ دوستی کا گھمنڈ کرتے رہیں، لیکن زمین پر کام کرنے والے شیو سینک ابھی تک 25 سالہ بی جے پی اتحاد سے باہر نکلنے کی ذہنیت نہیں بنا پا رہے ہیں۔


 خود کو ایک بڑا ہندوتوادی ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ، اُدھو کے دل سے بی جے پی کا بڑا بھائی ہونے کا گھمنڈ بھی ان کے دماغ سے نہیں نکل رہا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار یہ یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہی بی جے پی نے مہاراشٹر میں اتنی ترقی کی ہے۔  لیکن اعداد و شمار اور تاریخ اس تکبر کو بھی جھٹلاتی نظر آتی ہے۔  اس بار تو ان کو جواب دیتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف دیویندر فڑنویس نے کہا کہ جب شیو سینا پیدا بھی نہیں ہوئی تھی، اس وقت بھی ممبئی میں بی جے پی کے ارکان منتخب ہوتے تھے۔  شیو سینا سے پہلے بی جے پی ایم ایل اے مہاراشٹر اسمبلی میں پہنچ چکے تھے۔  یہاں تک کہ 1984 کے لوک سبھا انتخابات بھی شیوسینا نے بی جے پی کے نشان پر لڑے تھے۔


 تاریخ کی دستاویز میں درج ان حقائق سے شیو سینا بھی انکار نہیں کر سکتی کہ سال 1990 تک الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شیوسینا کے امیدواروں کا ذکر صرف آزاد امیدواروں کے طور پر ہوتا تھا۔  جبکہ بی جے پی کی سابقہ ​​شکل جن سنگھ نے 1957 میں ہی اس وقت کے متحدہ مہاراشٹر میں 25 اسمبلی انتخابات لڑ کر ایک قومی پارٹی کے طور پر چار سیٹیں جیتنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔  دوہری رکنیت کے معاملے پر 1980 میں جنتا پارٹی سے علیحدگی کے بعد ممبئی (جن سنگھ کی ایک نئی شکل) میں اس کے قیام کے فوراً بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں، بی جے پی نے مہاراشٹر میں 145 سیٹوں پر مقابلہ کیا، جو کہ کانگریس کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ 9.38 فیصد ووٹ لے کر 14 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی


 آج ادھو ٹھاکرے دعویٰ کر رہے ہیں کہ 1992 میں متنازعہ ڈھانچہ کے انہدام کے بعد شیوسینا کی پوزیشن اتنی مضبوط تھی کہ اگر اس وقت اس نے مہاراشٹر سے باہر آنے کی کوشش کی ہوتی تو آج  دہلی میں ان کا وزیر اعظم ہوتا۔  وہیں دیویندر فڑنویس نے باقاعدہ ٰاعداد و شمار بتاکر   ان کے دعوے کی یہ کہہ کر ہوا نکال دی ہے کہ 1992 کے بعد سے جب بھی شیوسینا اتر پردیش سے الیکشن لڑی ہے ایک آدھ سیٹ کو چھوڑ کر ، باقی سیٹوں پر اس کی ضمانت ہی ضبط ہوئی ہے۔  مہاراشٹر بی جے پی کے ایک طبقے کا ماننا ہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔  جب شیوسینا کو بی جے پی کے ساتھ تقریباً مساوی سیٹوں پر لڑنے کے باوجود تقریباً نصف سیٹیں ہی ملی تھیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages