src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> بہار کی حاجی پور پولیس نے ایک ایسی خونی سازش کا پردہ فاش کیا، جس میں کبھی 'قتل' ہوا ہی نہیں تھا۔ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 21 جنوری، 2022

بہار کی حاجی پور پولیس نے ایک ایسی خونی سازش کا پردہ فاش کیا، جس میں کبھی 'قتل' ہوا ہی نہیں تھا۔

 
بہار کی حاجی پور پولیس نے ایک ایسی خونی سازش کا پردہ فاش کیا، جس میں کبھی 'قتل'  ہوا ہی نہیں تھا۔


 قتل ہونا تھا۔  لیکن شرط یہ تھی کہ جس کو قتل کیا جا رہا ہے، اس کا خون نہیں بہے گا۔  چنانچہ قاتل کمال ہوشیاری سے قتل کی واردات انجام دیتا ہے,  لیکن لاش غائب ہوجاتی ہے۔   سازش میں لپٹی یہ محبت کی وہ کہانی ہے جس نے پولیس کو بھی حیران کر دیا ۔  اس واردات ک تعلق حاجی پور، بہار سے ہے۔


   حاجی پور:21  دسمبر منگل کا دن تھا , صبح کے 9 بجے تھے ۔گھر کے اس کمرے کا منظر رونگٹے کھڑے کردینے والا تھا ۔ اس کمرے میں خون بکھرا پڑا تھا ۔  دیوار پر، بستر کے نیچے۔  ہر طرف خون ہی خون تھا ۔  مزید یہ کہ کمرے میں ہی خون آلود ایک تیز دھار سبزی کاٹنے والا چاقو بھی موجود تھا۔  حیرت کی بات یہ تھی کہ نیتو نامی خاتون، جس کا یہ کمرہ تھا، پراسرار طور پر غائب تھی۔  کمرے کا یہ منظر دیکھ کر اہل خانہ کی چیخیں نکل گئیں۔  صبح سویرے گھر میں رونا پیٹنا مچ گیا۔  کسی کی سمجھ میں  نہیں آرہا تھا کہ رات کو گھر کی بہو نیتو کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اس کے کمرے میں اتنا خون بکھر گیا, اور تو اور  نیتو خود کہاں چلی  گئی؟  اس کے علاوہ اس کا موبائل فون بھی مسلسل سوئچ آف بتارہا تھا۔ تو کیا کسی نے رات کو ہی چاقو سے  نیتو کو  کاٹ کر مار ڈالا؟  اور ثبوت مٹانے کی نیت سے اس کی لاش بھی غائب کر دی؟  سوال یقیناً پریشان کن تھا۔  یہ خبر دیکھتے ہی دیکھتے پورے حاجی پور میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔  گھر کے اندر ایک خاندان کی بہو کا قتل اور قاتلوں کا اس کی لاش کو غائب کر دینا اپنے آپ میں بہت بڑی بات تھی۔  لیکن چونکہ یہ واقعہ اس کے سسرال میں پیش آیا تھا اس لیے سسرال والے لوگوں کے نشانے پر تھے۔


آناً فاناً نیتو کے گھر والوں کونیتو کے قتل کی خبر مل گئی اور گھر والے فوراً اپنی بیٹی کے سسرال پہنچ گئے۔  سسرال والوں سے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا لیکن نیتو کو جس طرح قتل کیا گیا تھا اور قاتلوں نے جس طرح اس کی لاش غائب کی تھی اس کا سسرال والوں کے پاس بھی کوئی پختہ جواب نہیں تھا۔  ایسے میں سسرال والے شک کی زد میں آگئے۔


 دوسری جانب موقع پر پہنچی بہار کی حاجی پور پولیس نے جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کے ساتھ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ڈاگ اسکواڈ کے ساتھ ساتھ فارنسک ماہرین کو بھی طلب کیا۔  سونگھنے والے کتے نے کمرے کا کونا کونا سونگھا اور دوبارہ گھر سے نکلنے والے کے راستے پر دوڑرنے لگا لیکن کچھ دیر بعد ہی وہ رک گیا۔  کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کتا قاتلوں کے بارے میں کوئی خاص سراغ نہیں دے سکا۔


 فارنسک ماہرین نے کمرے سے  فنگر پرنٹس کے ساتھ ساتھ وہاں بکھرے ہوئے خون کے نمونے بھی اکٹھے کیے اور پولیس نے کمرے کو سیل کر کے کیس کی تفتیش کو آگے بڑھا دیا۔  تاہم، قاتل جو کوئی بھی تھا، لیکن نیتو کے اہل خانہ کا سیدھا الزام اس کے سسرال والوں پر تھا۔  جو مسلسل کہہ رہا تھے کہ نیتو کے سسرال والوں نے ان کی بیٹی کو جہیز کے لیے قتل کردیا اور ثبوت مٹانے کے لیے لاش بھی غائب کردی۔  ایسے میں بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے، پولیس نے نیتو کی ساس اور اس کے دیور کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ شروع کردی۔


 تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ نیتو کی شادی ڈیڑھ سال قبل اس خاندان کے بیٹے اودھیش کے ساتھ ہوئی تھی۔  اودھیش دہلی میں ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اور چھٹیوں میں اپنے گھر حاجی پور آیا کرتا تھا۔  تاہم دور رہنے کے باوجود وہ اپنی بیوی نیتو کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔  دونوں روز لمبی لمبی باتیں کرتے تھے۔  اتفاق سے اپنے قتل کی رات بھی نیتو نے اپنے شوہر اودھیش سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک فون پر بات کی اور پھر سوگئی۔  لیکن اگلی صبح جب نیتو دیر تک اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تو اس کی ساس نیتو کو جگانے گئی , لیکن نیتو کے  کمرے کا دہلادینے والا منظر دیکھ کر ساس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔


 اب سوال یہ تھا کہ نیتو کو اس کے سسرال والوں نے قتل نہیں کیا تو کس نے کیا؟  قاتل کی نیتو سے کیا دشمنی تھی کہ آدھی رات کو گھر میں گھس کر اسے قتل کردیا؟  رات کو گھر میں بہو کا قتل ہوا تو سسرال والوں کو اس کی بھنک تک کیوں نہیں لگی؟  سوال یہ بھی تھا کہ آخر قاتل کو نیتو کی لاش کو غائب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟  وہ لاش کو موقعۂ وارات  پر چھوڑ کر بھی جا سکتا تھا۔


 قتل کے اس معاملے میں پولیس کو ڈاگ اسکواڈ سے کوئی خاص مدد نہیں ملی لیکن فارنسک ٹیم نے قتل کے اس کیس میں بڑا سراغ لگالیا۔ فارنسک رپورٹ کے مطابق نیتو کے کمرے میں بکھرا ہوا خون کسی انسان کا ہی تھا۔  یعنی یہ سچ تھا کہ یہ حملہ نیتو پر ہی ہوا تھا ۔  اور قاتل نے لاش بھی غائب کر دی تھی۔  لیکن چونکہ اب لاش غائب تھی اس لیے اس خون سے نیتو کے خون ،  بلڈ گروپ یا ڈی این اے کو  ملانا فوری طور پر ناممکن تھا۔  ویسے بھی یہ کام پیچیدہ تھا اور رپورٹ راتوں رات نہیں آنی تھی۔


 لیکن اس تفتیش میں پولیس کو  ایک اور چونکا دینے والی بات سامنے آئی۔  یعنی نیتو کے کمرے سے اس کی ایک پسندیدہ جیکٹ غائب تھی۔  دراصل نیتو ہمیشہ وہ پسندیدہ جیکٹ پہنتی تھی اور قتل کے اس واردات  کے بعد نیتو کے ساتھ اس کی یہ جیکٹ بھی غائب تھی۔  اگر قاتل نے آدھی رات کو اس کا قتل کیا ہےتو یقیناً نیتو اس وقت وہ جیکٹ پہن کر نہیں سو رہی ہوگی۔  ایسے میں جیکٹ کا غائب ہونا بھی معاملے کو پیچیدہ بنا رہا تھا۔  پھر سوال یہ تھا کہ قاتل نے نیتو کی جیکٹ کیوں  غائب کی ؟


  نیتو کا شوہر اودھیش بھی دہلی سے حاجی پور لوٹ آیا تھا۔  پولیس نے اس سے بھی پوچھ تاچھ کی اور اس نے بتایا کہ  آخری بار اس کی نیتو سے  قتل کی رات یعنی 20 دسمبر کو طویل بات ہوئی تھی۔  پولیس نے نیتو کے شوہر کے بیان کی تصدیق کرنے کا فیصلہ کیا۔  اس کے ساتھ ہی وہ نیتو کی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنا چاہتی تھی۔  تاکہ اس کے دشمنوں کا پتہ چل سکے۔  اس ارادے سے پولیس نے سب سے پہلے نیتو کے موبائل فون کا سی ڈی آر یعنی کال ڈیٹیل ریکارڈ حاصل کیا۔  لیکن سی ڈی آر کے معائنہ نے پولیس کو چونکنے پر مجبور کر دیا۔


   نیتو اپنے شوہر سے زیادہ فون پر کسی اور سے زیادہ بات کرتی تھی۔  اور وہ بھی دیر رات گئے  حب گھر کے سب لوگ سوجاتے تھے ۔  ایک اہم بات یہ تھی کہ واردات والی رات بھی اپنے شوہر سے بات کرنے کے بعد نیتو نے کافی دیر تک اس نمبر پر بات کی۔  اب پولیس نے تمام تر توجہ تکنیکی نگرانی پر مرکوز کردی۔

 

 پولیس نے اس مشکوک نمبر کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے ہوئے اس کے گھر کے ارد گرد لگے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بھی جانچ شروع کر دی۔  اس کوشش میں پولس نے دیکھا کہ دیر رات گئے ایک تیز رفتار اسکارپیو اس کے گھر کے پاس سے نکلی۔ اب شبہ یہ تھا کہ قاتل جو بھی تھا وہ اس اسکارپیو میں سوار ہو کر یہاں پہنچا تھا اور نیتو کی جان لینے کے بعد لاش بھی اسی کار میں لے گیا۔  یعنی اب پولیس کے پاس دو سراغ تھے۔  ایک وہ نامعلوم نمبر اور دوسری اسکارپیو کار۔


 ان دونوں کے مالکان کو جاننے کے لئے پولس نے اپنی پوری قوت لگادی اور پھر اس کہانی میں پہلا بڑا اور نیا موڑ آیا۔  پولیس کو معلوم ہوا کہ موبائل نمبر حاجی پور سے 50 کلومیٹر دور مظفر پور کے رہنے والے نوجوان سونو کمار کا ہے۔  یہ سونو بھی کوئی اور نہیں بلکہ رشتہ میں نیتو کا بہنوئی لگتا تھا۔  یعنی نیتو کا دور کا رشتہ دار۔  پولس نے جب جانچ کی تو پتہ چلا کہ سونو کے پاس اسکارپیو بھی ہے۔  اب کڑیاں ایک دوسرے سے جڑنے لگی تھیں۔


 حاجی پور پولیس مظفر پور میں سونو کے گھر پر موجود گئی۔  سونو بھی گھر سے مل گیا۔  لیکن وہاں سونو کے ساتھ نیتو بھی موجود تھی۔  وہی نیتو جس کا 20 اور 21 دسمبر کی درمیانی رات قتل کر دیا گیا تھا۔  لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟  جو مر گیا وہ زندہ کیسے ہو سکتا ہے؟  واضح رہے کہ نیتو کا اس رات قتل ہی نہیں ہوا تھا۔


 سوال یہ تھا کہ اگر نیتو کا قتل نہیں ہوا تھا تو اس کے کمرے میں بکھرا ہوا انسانی خون کس کا تھا؟  کیا نیتو کو مردہ دکھانے کے لیے سونو نے کسی اور کی جان لی تھی ؟  آخر معاملہ کیا تھا؟  آخر یہ سازش کیا تھی؟  پولیس نے بغیر کسی تاخیر کے سونو اور نیتو دونوں کو حراست میں لے لیا۔  معلوم ہوا کہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔  یہ سلسلہ برسوں چھپ کر چلتا رہا۔  یہاں تک کہ سونو نے بھی نیتو کی طرح شادی کی تھی، لیکن ان دونوں کا میل جول نہیں رکا۔


حیرت کی بات یہ ہے کہ نیتو کے شوہر اور خود ان کے اہل خانہ سمیت کسی کو بھی ان کے رشتے کے بارے میں معلوم نہیں ہوا۔  یہاں تک کہ جب یہ 20 تاریخ کو یہ واقعہ ہوا، نیتو کی ساس یا گھر کے کسی اور نے نیتو کے رویے میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا۔


 پوچھ گچھ سے واضح ہوا کہ یہ شازش سونو اور نیتو نے ہی کی تھی۔  دونوں نیتو کو مردہ دکھانا چاہتے تھے تاکہ لوگ اسے تلاش کرنا چھوڑ دیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ آرام سے رہ سکیں۔  لیکن سوال یہ تھا کہ نیتو نے اپنی موت کیسے ظاہر کی؟  چنانچہ اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے قتل کا منظر بنانے کا فیصلہ کیا۔  سازش کے مطابق سونو نے مظفر پور کے بلڈ بینک سے خون کا ایک پاؤچ ہزار روپے میں خریدا۔  اور پھر 20 اور 21 دسمبر کی درمیانی رات کو دونوں نے کمرے میں قتل کا منظر بنایا۔  انہوں نے کمرے میں خون بکھیر دیا اور  ہتھیار پر خون لگادیا، تاکہ دیکھنے  والوں کو لگے کہ قاتل نے نیتو کو  دھار دار ہتھیار سے کاٹ کر قتل کیا ہے۔


 تاہم اب ساری کہانی واضح ہو چکی تھی۔  پولیس نے نیتو اور اس کے عاشق سونو دونوں کو گرفتار کر لیا۔  دونوں نے کسی کا قتل نہیں کیا بلکہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر قانون کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔  ایسے میں ان دونوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 420 کے تحت دھوکہ دہی اور 120 بی کے تحت مجرمانہ سازش کا مقدمہ درج کیا گیا۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages