ہند۔ایران کے تہذیبی و ثقافتی رشتے بہت قدیم ہیں: ڈاکٹر علی ربانی
نئی دہلی،10 دسمبر : ہندوستان اور ایران کے ٰقدیم رشتے اور گہرے دوستانہ تعلقات پرروشنی ڈالتے ہوئے ایران کے کلچرل کونسلر ڈاکٹر علی ربانی نے کہا کہ ہند۔ ایران کے تہذیبی و ثقافتی رشتے بہت قدیم ہیں۔ چوں کہ فارسی اور اردو میں ماں اور بیٹی کا رشتہ ہے، اس لیے قدیم تہذیب و ثقافت کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہوں نے اردو اکادمی، دہلی کے وائس چیئرمین کی دعوت پر اردو اکادمی، دہلی کے دفتر کا دورہ کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر ایران کلچرل ہاؤس کے ڈاکٹر شکر اللہ، ڈائرکٹر مرکز تحقیقاتِ فارسی بھی موجود تھے۔ اسی کے ساتھ اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے ان کا پھولوں سے استقبال کیا اور انھیں اکادمی کی مطبوعات پیش کیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیمی سطح پر بھی دونوں زبانوں کا فروغ دونوں ملکوں کے عوام کے لیے بہت ضروری ہے۔ دونوں ملکوں کی تہذیبیں آپس میں اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ جیسے ان کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہو۔ انھوں نے تعلیمی سطح پر بھی دونوں زبانوں کی مشترکہ کلاسوں کے شروع کرنے پر بھی گفتگو کی۔
وائس چیئرمین اکادمی حاجی تاج محمد نے اکادمی کی جملہ سرگرمیوں کے ساتھ اکادمی کے ذریعہ چلائے جارہے اردو خواندگی مراکز، اردو سرٹیفکیٹ کورس اور اردو کتابت و خطاطی کلاسوں سے انھیں متعارف کرایا جس پر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ حاجی تاج محمد نے کورونا وبا کے سبب تقریباً دوسال سے اکادمی کی تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کے تعطل کے شکار ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرگرمیاں جلدہی دوبارہ شروع ہوجائیں گی۔
ڈاکٹر شکر اللہ نے بھی اردو اکادمی، دہلی کے پروگراموں سے واقفیت حاصل ہونے پر خوشی کا اظہار کیا اور زبان سے متعلق انھوں نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ جس طرح مولانا روم نے اپنے وطن سے متعلق کہا تھا کہ میں نہ ایران کا ہوں نہ عراق کا، نہ بغداد کا نہ اصفہان کا پوری دنیا میرا وطن ہے۔ اسی طرح اردو اور فارسی زبان کا بھی کوئی خاص وطن نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کی زبانیں ہیں۔
دونوں معزز مہمانوں نے اردو اکادمی کی دارا شکوہ لائبری اور کتابت و خطاطی سینٹر کا بھی دورہ کیا اور خطاطی سینٹر میں ڈاکٹر شکر اللہ نے طلبہ کو خطاطی کی باریکیوں سے روشناس کرایا۔
اس موقع پر گورننگ کونسل کے ممبران میں اسرار قریشی، محمود خاں، محمد ضیاء اللہ، محترمہ شبانہ خاں، چودھری سلیم، شکیل ملک کے علا وہ دیگر معززین شہر بھی موجود تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں