مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ میٹنگ میں زیرِ التواء معاملات اٹھانا وقت کا تقاضہ
تحریک اوقاف موجودہ ممبران سے اراضیات کی بندر بانٹ سمیت وقف افسران کے شاہانہ سفری اخراجات، غیر قانونی تقررات اور کرایہ و نزول ناموں سے متعلق سوالات کرنے کا عوامی مطالبہ‘ تحریک ِ اوقاف و شبیر احمد انصاری کی تجاویز پر عمل سے وقف معاملات میں سدھار ممکن
اورنگ آباد: یکم ستمبر : وقف بورڈ اراضیات و معاملات سے متعلق کل ایک اہم میٹنگ منعقد ہورہی ہے‘ تاہم اس میٹنگ میں کئی عرصے سے زیرِ التواء مسائل کو اٹھانا وقت کا تقاضہ ہے۔ اس سلسلے میں تحریک ِ اوقاف سمیت وقف بورڈ معاملات میں سدھار کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی کئی مسائل کی نشاندہی کی ہے‘ جسے کل منعقد ہونے والی میٹنگ میں پیش کرنا اور ان مسائل پر اربابِ مجاز سے جواب طلب کرنا ضروری ہے۔ تنظیموں اور ان کے سربراہان کی جانب سے پیش کردہ معاملات میں شہر کے جالنہ روڈ پر واقع کالی مسجد اراضی کا معاملہ سرفہرست ہے‘ اس اراضی کو وقف بورڈ نے 2008 میں گیارہ مہینے کے کرایہ پر دیا تھا‘ لیکن وقف بورڈ ذمہ داران کی بے توجہی کا عالم یہ ہے کہ آج تک کرایہ داروں سے کرایہ وصول نہیں کیا گیا‘ جبکہ بورڈ ممبران نے نہ ہی کسی میٹنگ میں اس معاملہ پر سوال اٹھایا اور نہ ہی اس پر کوئی لب کشائی کی گئی۔ اسی طرح کا ایک اور معاملہ جالنہ شہر کی جامع مسجد کا بھی ہے‘ اس مسجد کی اراضی کی قیمت بھی کروڑوں روپئے ہے، تاہم 1998 میں وقف بورڈ سیکریٹری نے اراضی کا غیر قانونی متولّی مقرر کیا‘ جس کے بعد تحریک ِ اوقاف نے سی ای او شیخ انیس اور ڈپٹی سی ای او فاروق پٹھان کو اراضی کا معائنہ بھی کروایا‘ تاہم تفصیلی رپورٹ کے باوجود بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ عنبڑ کی درگاہ اشرف بیابانی کا معاملہ بھی وقف بورڈ کی میٹنگوں سے ہمیشہ ہی غائب رہا ہے‘ جس میں سے متولیوں نے 250ایکڑ زمین مختلف لوگوں کو بیچ دی اور ان کا 7/12 میں نام لگ چکا ہے۔اس زمین کی طرف بھی وقف بو رڈ کی کوئی توجہ نہیں ہے اورنہ ہی اس سنگین مسئلہ کو کبھی بورڈ کی میٹنگ میں رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی جالنہ شہر کی ہی درگاہ حضرت سیّد احمد درگاہ شیر سوار اراضی کو بھی او نے پونے داموں میں فروخت کردیا گیا‘ جس کی ریاستی وزیر برائے اوقاف سے شکایت بھی کئی گئی ہے اور اس معاملہ میں عدالت ِ عظمیٰ نے درگاہ حضرت سید احمد شیر سوار جالنہ وقف جائیدادوں کو وقف بورڈ کے قبضے میں دینے کا حکم دیا آج تک پر عمل آوری نہیں ہوئی ہے۔اسی طرح وقف قوانین و بالائے طاق رکھ کر سی ای او سے لیکر دیگر ملازمین کے تقررات کے معاملات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ سی ای او‘ ڈپٹی سی ای او کے سفر اخراجات‘ کھانے اور رہائشی کرایے وغیرہ سے متعلق بھی سوالات تشنہ جواب ہیں‘ ان سے متعلق بھی وقف ممبران کو لب کشائی کرنے کی ضرورت ہے‘ اسی طرح کوسہ۔ ممبرا کی مسجد‘ وقف بورڈ کے ایک ذمہ داران کی جانب سے پونہ میں 8 کروڑ کی گھپلے بازی اور سچائی کو چھپانے کا معاملہ، بورڈ میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے ملازمین کے تقررات اور ان کو مستقل نہ کرنے سمیت دیگر زیرِ التواء معاملات پر بھی ملّی قائدین و وقف اراکین کو سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ تمام معاملات انتہائی اہم ہونے کے باوجود اب تک وقف بورڈ میٹنگوں سے غائب رہے ہیں اور بورڈ کے کسی رُکن نے ان معاملات کو اٹھانے کی ہمت نہیں کی‘ لیکن موجودہ ممبران سے ان معاملات میں عوام کو امیدیں اور توقعات ہیں۔ اس سلسلے علاقہ کے سرگرم سماجی خدمت گار شبیر احمد انصاری نے ایک تحریک بھی کھڑی کی ہے جو وقف مسائل پر بے حسی و خاموشی کو توڑنے والی ہے‘ وقف بورڈکے اربابِ مجاز شبیر احمدانصاری کے مطالبات پر بھی توجہ کرلیں تو وقف معاملات میں سدھار لایا جاسکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں