src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> بہار کے گیا میں باپ بیٹی کا مقدس رشتہ شرمسار, بیٹی نے اپنی معصوم بچی کے ساتھ لگائی پھانسی!! ‏ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 6 ستمبر، 2021

بہار کے گیا میں باپ بیٹی کا مقدس رشتہ شرمسار, بیٹی نے اپنی معصوم بچی کے ساتھ لگائی پھانسی!! ‏

 

بہار کے گیا میں باپ بیٹی کا مقدس رشتہ شرمسار, بیٹی نے اپنی معصوم بچی کے ساتھ لگائی پھانسی!! 


      خیال اثر مالیگانوی 


ہندوؤں کے لئے متبرک اور مقدس کہلانے والی سرزمین گیا سے دل دہلا دینے والا واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک شادی شدہ لڑکی نے اپنے ہی مکان میں پھانسی کے پھندے پر لٹکی پائی گئی اور اس کا شوہر اپنی معصوم کمسن بچی کو لئے بیچ چوراہے پر چیخ چیخ کر راہگیروں کو متوجہ کررہا تھا کہ کسی نے بھی نہ  ان کی مدد کی نہ ہی محمکہ پولیس نے  ان کی مسلسل شکایات پر کوئی کاروائی کی. سڑکوں پر ہونے والی چیخ پکار نے خواب خرگوش میں گم محمکہ پولیس کو جب بے حسی کی نیند سے جگایا تو عقدہ کھلتے ہی سب کے ہوش اڑ گئے. تب پتہ چلا کہ سنگیتا گوتم نامی شادی شدہ جوان لڑکی نے اپنے ہی مکان میں پہلے تو اپنی کمسن و معصوم بچی کو پھانسی کے پھندے سے لٹکایا اور پھر خود بھی پھانسی کے پھندے سے لٹک گئی. اس المناک واقعہ کی خبر کسی کو بھی نہ ہوتی لیکن سنگیتا کماری  کا شوہر گوتم جو پیشے سے ڈرائیور تھا اور کئی کئی دن گزرنے کے بعد اپنے گھر واپس آتا تھا اس طرح جب وہ ایک دن اپنے گھر واپس آیا تو اس نے جو دیکھا وہ منظر دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے. پہلے تو اس نے پھانسی پر لٹکی ہوئی اپنی کمسن بچی کو پھندے سے نکالا اور اسے سینے سے چمٹائے سڑکوں پر نکل آیا اور سواریوں سے بھری بیچ سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں کے آگے اپنی پھول سی بچی کو سینے سے لگائے لیٹ کر بے تحاشہ چیخیں مارتے ہوئے آنے جانے والوں کو متوجہ کرتا رہا کہ اس پر کیسی کیسی قیامتیں گزر گئیں لیکن کسی نے بھی اس کی مدد نہیں کی اور پھر یوں ہوا کہ گوتم کی دل دہلا دینے والی چیخوں نے پتھریلی دیواروں کے بے حس تھانہ میں بے حسی کی نیند میں غرقاب پولیس عملہ کو بھی بیدار کردیا. پولیس عملہ نے جب واقعہ کی تفتیش شروع کی تو سارا عقدہ کھلتے ہی پولیس کے ساتھ ساتھ قانون کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی ہوئی کالی پٹی بھی کسی چشم بینا کی طرح کھل کر سارے رازوں کو عیاں کرتی گئی . پولیس کو معلوم ہوا کہ سنگیتا گوتم نامی شادی شدہ خاتون نے پولیس تھانہ میں طویل تحریری شکایت دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اسے اس کے والدین اور اہل خانہ کے ہاتھوں زندہ در گور ہونے سے بچایا جائے. تفصیل سے لکھی گئی تحریری شکایت میں درج ہے کہ سنگیتا کی شادی گوتم نامی شخص سے 17 اگست 2015 کو ہوئی تھی اور وہ اپنے شوہر جو کہ لوہر دگا جھارکھنڈ کے ساکن تھے کے ہمراہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد ایک کرایے کے مکان میں سکونت پذیر تھی جبکہ شادی سے پہلے وہ اپنے والد کے مکان نارائن نگر مفصل ضلع گیا میں رہا کرتی تھی. سنگیتا نے اپنی آپ بیتی کھل کر لکھتے ہوئے صاف عیاں کیا کہ اس کے والد شیو ناتھ پرساد گپتا برسوں پہلے سے اس کے بدن کو ناجائز طریقوں سے اپنی دسترس میں لینے کی کوشش کیا کرتا تھا  اور جب بھی اس گھناؤنے فعل کی مخالفت کرتی یا اپنی ماں ,بھائی بہنوں اور دیگر رشتے داروں کو بتانےکی کوشش کرتی تو وہ سب مل کر اس سنگین صورتحال کو میرے دماغ کا خلل قرار دیتے ہوئے مجھے پاگل ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے. اس طرح اہل خانہ کی غفلت اور لاپرواہی کی بدولت میرے والد کی ہمت بڑھتی گئی اور پھر جو ہوا اسے سن کر ہی روح کانپ کانپ اٹھتی ہے کہ کوئی باپ بھی  کیسےاتنی ذلالت پر آمادہ ہو سکتا ہے. جو بات پڑھنے اور سننے والوں کے کلیجوں کو دہلا کر رکھ دے تو سوچئیے جس پر گزری ہے اس کے روح و دل پر کیسی کیسی قیامتیں گزر گئی ہوں گی کہ ایک باپ بھی اتنی حیوانیت پر کس طرح آمادہ ہو سکتا ہے لیکن حقیقت حال کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین صورتحال کو من و عن قبول کر لیا جائے کیونکہ بیانیہ اس بیٹی کی کہانی کو پیش کرتا ہے جسے باپ کی ہوس نے بری طرح روند ڈالا. ایسا نہیں ہے کہ بیٹی نے باپ کی ہوس کا شکار بننے سے انکار نہ کیا ہو لیکن یہ طے ہے کہ سنگیتا نے اپنی تحریری شکایت میں صاف طور پر عیاں کیا ہے کہ شادی سے پہلے بھی اس کا باپ اس کے بدن کو غلط طریقوں سے چھونے کی کوشش کیا کرتا تھا. اہل خانہ کو ظاہر کرنے کے بعد بھی کسی نے ایک نہ سنی اور الٹا اسے ہی پاگل قرار دے دیا تھا .یہ سب دیکھنے کے بعد اس کا باپ اور شیر ہو گیا. اس کی ہمت اتنی بڑھی کہ وہ کسی بھوکے گدھ کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا اور پل بھر میں ہی اپنی بیٹی کی عزت کو تاراج کرتے ہوئے اپنی ہوس کا شکار بنا کر لوٹ گیا. اس طرح بارہا اس نے یہی شیطانی فعل انجام دیا. سنگیتا جب بھی اپنے باپ کو ایسی کسی حرکت سے روکنے کی کوشش کرتی تو اس کا باپ اس کے پتی کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر چپ رہنے پر مجبور کردیا تھا لیکن یہ طے ہے کہ ایک نہ ایک دن یوم احتساب آتا ہے اور وہی دن سارے ظلموں کے حساب بےباک کرنے کا دن ہوا کرتا ہے. ہر گناہ گار اپنے گناہوں کی سزا کا حقدار قرار پاتا ہے. سنگیتا اور اس کی معصوم بچی کی کسمپرسی یا ڈر اور خوف کے عالم میں پھانسی لے کر مر جانے کی خبریں جب قانون کی بے حس دیواروں کو کھنڈر بنانے پر آمادہ ہوئی تو اس کی وجہ صرف اور صرف سنگیتا کے شوہر کی وہ فلک شگاف چیخیں تھیں جو اس نے اپنی دم توڑ چکی معصوم بچی کو سینے سے چمٹائے بیچ چوراہے پر آتی جاتی گاڑیوں کے آگے لیٹ کر ماری تھیں. یقیناً سنگیتا کے شوہر کی چینخیں آسمانوں کا سینہ بھی چھلنی کرنے کا سبب بنی ہوں گی یا پھر زمین بھی شرمسار ہو کر کہہ اٹھی ہوگی کہ کاش زمین کا سینہ شق ہو جائے اور وہ اس میں سماجائے. ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ المناک واقعہ قانون و عدلیہ کی فائلوں میں دبا دھول کھاتا رہے اور چشم دید گواہان کی غیر موجودگی کا بہانہ بنا کر ظالم و سفاک باپ کی برات کا اعلان کردے لیکن کیا یہ شیطان صفت باپ اس لائق ہے کہ اسے اس کے کئے کی سزا دینے سے اجتناب برتا جائے. برسہا برس سے ایسے واقعات کہیں نا کہیں رونما ہوا کرتے ہیں. مغربی ممالک میں تو ایسے افعال کو شجر منموعہ نہیں گردانا جاتا لیکن وہ ملک جہاں سرسوتی اور میرا کی پوجا کی جاتی ہو ان کی وندنا کی جاتی ہو کیا ایسے ملک  میں ایسے رزیل فعل کو در گزر کیا جا سکتا ہے. رام کے نام پر برسوں پرانی بابری مسجد کو شہید کردینے والے رام بَھکتوں کی ذہنیت پر ایک دو نہیں بلکہ ہزارہا سوالیہ نشانات لگاتا ہوا یہ المناک واقعہ کیا بے حس ہندوستانی سماج و معاشرہ کو نیند سے جگانے کا باعث  بن سکتا ہے. یقیناً بننا چاہیے کیونکہ ہمارے لئے ہر حال میں قانون کی بالا دستی مقدم ہے. قانون بھلے ہی اس واقعہ کو در گزر کردے لیکن ہندوستانی سماج کے لئے یہ دہشت ناک واقعہ کسی ناسور سے کم نہیں. آج سنگیتا کی عزت سے کھلواڑ اس کے ہی باپ نے کیا ہے. ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کہانی گھر گھر کی کہانی بن جائے. رشتوں کا سارا تقدس پامال سے پامال تر ہوتا جائے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages