کیپٹن امریندر سنگھ کے استعفیٰ کے بعد ، چرنجیت سنگھ چننی کو کانگریس پارٹی نے پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے۔ چننی نہ تو کانگریس ہائی کمان کی پہلی پسند تھے اور نہ ہی کانگریس لیجسلیچر پارٹی کا انتخاب۔ ریاست کے پہلے دلت وزیراعلیٰ کے طور پر ان کا انتخاب کئی سینئر لیڈران کے ذریعہ سکھ بمقابلہ ہندو وزیراعلیٰ کی لڑائی میں نکل کر سامنے آیا ۔
'دی انڈین ایکسپریس' کی ایک رپورٹ کے مطابق ، کئی لیڈران نے نشاندہی کی کہ 32 فیصد دلت آبادی والی ریاست میں ایک دلت کو وزیراعلیٰ بنانا ایک درست سیاسی فیصلہ ہے۔ پنجاب میں اکالی دل نے بی ایس پی کے ساتھ گٹھ بندھن کیا ہے۔ اور ایک دلت کو نائب وزیراعلیٰ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ وہیں ، عام آدمی پارٹی اس ووٹ بینک پر برتری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بی جے پی نے اقتدار میں آنے پر ایک دلت کو وزیر اعلیٰ بنانے کی بات بھی کی ہے۔
چرنجیت سنگھ چنی کے پروموشن کے ساتھ کانگریس ہائی کمان نے یہ بھی یقینی بنایا ہے کہ پنجاب کانگریس کے صدر نوجوت سنگھ سدھو کو قابو میں رکھا جائے۔ پارٹی کو امید ہے کہ ایک دلت لیڈر کے عروج کو مختلف گٹوں اور ان کے لیڈران کے ذریعہ چیلنج نہیں کیا جائے گا ، جو وزیراعلیٰ کے عہدے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سکھ بمقابلہ ہندو تنازعہ منظر عام پر آنے سے پہلے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کا انتخاب پی پی سی سی کے سابق صدر سنیل جاکھڑ تھے۔
تاہم نوجوت سنگھ سدھو جاکھڑ کو اعلیٰ عہدہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شاید اس خوف سے کہ وہ ایک نئی مرکزی طاقت کے طور پر ابھریں گے۔ سینئریڈر امبیکا سونی نے بھی جاکھڑ کے نام کی سخت مخالفت کی تھی ۔ ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے جمعہ کو ہی کانگریس صدر سونیا گاندھی کو اپنا اعتراض جتایا تھا۔
کانگریس قیادت نے امبیکا سونی کو وزیراعلیٰ بننے کی پیشکش بھی کی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا۔ راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ سونی گاندھی خاندان کے پرانے وفادار ہیں۔ پارٹی کو اپنی تیز سیاسی مہارت پر یقین تھا کہ وہ پنجاب کانگریس کی گٹ بندی کو ختم کر دے گی۔ تاہم راہول گاندھی سے ملنے کے بعد امبیکا سونی نے کہا ، "میں نے وزیراعلیٰ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ پارٹی کی مشق چندی گڑھ میں جاری ہے۔ جنرل سیکریٹری وہاں ہیں۔ دو مبصر ہیں۔ وہ ہر ایم ایل اے سے بات کر رہے ہیں اور تحریری طور پر ان رائے طلب کررہے ہیں ۔" انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سکھ ہونا چاہیے کیونکہ پنجاب ہی واحد ریاست ہے جہاں سکھ برادری کا ہی کوئی فرد وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے۔
امبیکا سونی کے سکھ کارڈ کے بعد ، سی ایل پی میٹنگ جو صبح 11 بجے ہونا تھی منسوخ کر دی گئی۔ کچھ لیڈران نے دعویٰ کیا کہ وہ سکھجندر سنگھ رندھاوا کے لیے بیٹنگ کر رہی ہیں۔ کچھ نے اس کے نام سے اختلاف کیا۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ، "کانگریس کی سیاست میں ، جو کچھ ہو رہا ہے اکثر ویسا نہیں ہوتا ہے۔"
ذرائع سے موصولہ معلومات کے مطابق نوجوت سنگھ سدھو نے رندھاوا کے نام کی مخالفت کی۔ انہوں نے ہائی کمان سے کہا کہ اگر کوئی دلت اگلا وزیر اعلیٰ بن جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ایک لیڈر نے کہا ، “رندھاوا جکھڑ کی امیدواری پر اعتراض کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہندو کو سکھ اکثریتی ریاست کا وزیراعلیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لڑائی میں ، چننی سمجھوتہ کرنے والے امیدوار بن گئے۔
پنجاب کے کانگریس ممبران اسمبلی ، جنہوں نے جولائی میں سدھو کو پی پی سی سی صدر بننے کی مخالفت کی تھی اور اس وقت کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کی حمایت کر رہے تھے ، نے بھی جاکھڑ کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے سابق ریاستی سربراہ پرتاپ سنگھ باجوہ کی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ بھی کی۔ جب باجوہ کی امیدواری کے بارے میں پوچھا گیا تو ایک رکن پارلیمنٹ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک اور رکن پارلیمنٹ نے کہا ، "اگر کسی ہندو کو وزیر اعلیٰ بنانا ہے تو آنند پور صاحب سے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری ، کیوں نہیں۔"
ذرائع نے بتایا کہ ایم ایل اے میں بھی رائے بٹی ہوئی تھی ۔ ایک نے دعویٰ کیا کہ جاکھڑ کو 38 ووٹ ملے ، اس کے بعد رندھاوا کو صرف 18 ووٹ ملے۔ امریندر کی رکن اسمبلی بیوی پرنیت کور کو 12 اور سدھو کو پانچ ووٹ ملے۔ اس رائے دہی واضح ہوگیا کہ کانگریس ہائی کمان بھی پنجاب میں ایک سکھ وزیراعلیٰ کی تلاش میں ہے۔ رندھاوا اس ووٹنگ میں سب سے آگے آئے تھے ، پھر سدھو نے اپنی ٹوپی رنگ میں پھینک دی۔
کوئی اتفاق رائے نہیں تھا۔ وقت بھی گزر رہا تھا۔ پارٹی چاہتی تھی کہ نیا وزیر اعلیٰ ’’ خراب وقت ‘‘ شروع ہونے سے پہلے چارج سنبھال لے۔ اس کے بعد ہائی کمان نے چننی کا رخ کیا۔
تاہم ، کئی لیڈران نے انڈین ایکسپریس صبح بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کا نام کس نے تجویز کیا ہے۔ ایک سینئر لیڈر نے کہا: "بڑے لیڈروں کی دعوی داری ختم کرنے کے لیے ان کے نام اچھالے جا رہے ہیں۔ یہ ایک کلاسک ہائی کمانڈ آپریشن ہے۔ اس سے افراتفری اور الجھن تو ہوگی اور آخر میں کانگریس صدر کسی کو نامزد کرے گا۔ "ایک اور لیڈر نے کہا کہ سبکدوش ہونے والے وزیر خزانہ منپریت بادل چنی کی حمایت کرنے والے واحد لیڈر ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ لوک سبھا رکن پارلیمنٹ اور ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر امر سنگھ کا نام ، جنہیں سدھو نے اپنے مشیر کے طور پر مقرر کیا تھا ، کو بھی ان کے کیمپ نے تجویز کیا تھا۔ امر سنگھ فتح گڑھ صاحب سے رکن اسمبلی ہیں اور دلت ہیں۔
معاملہ پیچیدہ ہوتا دیکھ کر راہل گاندھی کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی کے گھر پہنچے اور چننی کے نام پر ان کی رضامندی لی۔ اس کے بعد انہوں نے اے آئی سی سی کے جنرل سیکریٹری (آرگنائزیشن) کے سی وینوگوپال سے ملاقات کی اور اے آئی سی سی کے جنرل سیکریٹری ہریش راوت سے کہا گیا کہ وہ چننی کو سی ایل پی لیڈر منتخب کرنے کے فیصلے کا اعلان کریں۔ راوت نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ چننی "متفقہ انتخاب" تھے۔ لیکن ذرائع نے بتایا کہ چننی کی آخری وقت تک بھرپور وکالت کی گئی اور پنجاب یونٹ سے کئی پیغامات ہائی کمان کو بھیجے گئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں