آج مالیگاؤں کے مفلس و نادار تخلیقی شاعر عبداللہ ہلال کی چھٹی برسی
نوجوانی میں انتقال کر جانے والے اس البیلے فنکار پر سرکردہ افراد نے اپنا قلبی تاثر پیش کیا
مالیگاؤں (خیال اثر ) مالیگاؤں شہر اپنے ابتدائی ایام سے ہی ادب عالیہ کے لئے سر سبز و شاداب رہا ہے. مولانا یوسف عزیز سے لے کر مسلم, سہیل, ادیب, اختر,عتیق , نصیر , ناصر ,عبدالسلام اظہر تک اور پھر بعد کے دنوں میں بدلتے ادوار کے ساتھ جب شعر و ادب نے اپنی تجدید کاری کرتے ہوئے سید عارف, سلطان سبحانی, ارشد نظر ,اظہار سلیم, سلطان شاہد, مقیم اثر بیاولی, اثر صدیقی, امین صدیقی وغیرہ کو اپنے دامن میں سمیٹ کر نئی نسلوں کے چند ایک نمائندہ شعراء کی ہمراہی میں ادب کے شجر سایہ دار پر نئے برگ و بار لہلائے تو چند ایک کا سورج بام پر روشن تو کچھ ایسے بھی ہیں جو غریبی اور کسمپرسی کے عالم میں اس بلندیوں تک نہیں پہنچ پائے جو ان کا نصیب تھا. ایسا نہیں ہے کہ بلندیوں تک نہیں پہنچ پانے والوں میں تخلیقی صلاحتیں نہ تھیں. ایسے ہی ایک خلاقانہ ذہنیت رکھنے والوں میں غریب الدیار شاعر عبداللہ ہلال کا بھی شمار ہوتا ہے. آج ان کی چھٹی برسی پر نم آنکھوں سے اپنا قلبی تاثر پیش کرتے ہوئے کوہ نور میوزک اکیڈمی کے روح رواں ابوالفیصل شفیق احمد نے کہا کہ مرحوم کی تخلیقی صلاحتیں اس درجہ شیر افگن تھی کہ ہر کوئی ان سے ملنے اور باتیں کرنے کے بعد حیران و ششدر ہو جاتا تھا. بے شمار نوجوان شعراء کی تخلیقی صلاحتوں کو دوام عطا کرنے والا یہ البیلا شاعر گوشہ گمنامی میں رہتے ہوئے موت کی آغوش میں جا سویا. مشٰاعروں کی چمک دمک نے عبداللہ ہلال کو کبھی بھی اپنی تابندہ و درخشاں کرنیں بکھیرنے کا موقع نہ دیا بلکہ یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ چڑھتے سورج کے پجاریوں نے عبداللہ ہلال کی چوکھٹ پر کسی کو بھی زانوئے تلمذ تہ کرنےکاموقع نہ دیا لیکن عبداللہ ہلال جیسے البیلے شاعر کا یہ ظرف تھا کہ اس نے کبھی بھی حرف شکایت لبوں پر نہ لایا اور نہ ہی کسی سے شاکی رہا. اگر کبھی اس کے دل کا درد زبان پر آ جاتا تو اس کی زبان سے بے ساختہ یہ شعر نکل آتا تھا کہ
زندگی بن گئی افلاس میں ڈھل کر پتھر
ہم تو جیتے ہیں شب و روز نگل کر پتھر
نوجوان شاعر و ناظم رئیس ستارہ نے کہا کہ عبداللہ ہلال جیسا مفلس و نادار شٰاعر "موم کی سیڑھی "جیسا شعری مجموعہ ادب کے ایوانوں میں ارباب نقد و نظر کو دعوت نظر دیتا ہوا گمنامی کے عالم میں گم ہو گیا لیکن یہ طے ہے کہ اگر کسی کو ماہ و خورشید کی طرح اپنی کرنیں بکھیرنے کا حق ہے تو ایک نھنے سے جاندار جگنو کو بھی شب تاریک میں اپنی جھلملاہٹ بکھیرنے کا حق حاصل ہے.مرحوم عبداللہ ہلال حقیقی مانوں میں غریب الدیار تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا بقول محشر جالنوی کہ
حالات نے مجھ کو بھی عجوبہ بنا دیا
کیا دیکھتا ہے تاج محل مجھے بھی
نوجوان عالم دین مولانا امتیاز حیسن قدیری نے کہا کہ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ارباب نقد و نظر کی عدم توجہی نے ماضی میں جیسے عبدالسلام اظہر سے تغافل برتا تھا بالکل اسی طرح عبداللہ ہلال کا بھی استحصال کیا ہے. ایک انتہائی امیر و کبیر شخص کی ملازمت کرنے کے باوجود ہمیشہ ہی عبداللہ ہلال کا دامن خالی رہا. راتوں کی نیندیں تج کر عبداللہ ہلال نے سورج اجالے ہیں. عبداللہ ہلال مفلسی و ناداری کے عالم میں بھی کسی کے آگے اپنا دست تعاون دراز نہ کرنے والا خود دار شٰاعر روز بروز تو نہیں صدیوں میں کبھی کبھی جنم لیتا ہے لیکن جب بھی جنم لیتا ہے ادب کے ریگزاروں میں کسی ٹھنڈے میٹھے پانی کے جھرنے کی طرح تشنگان علم کے لئے سیرابی کا باعث بن جایا کرتا ہے. اگرچہ عبداللہ ہلال کا اصل نام "رئیس احمد حافظ عبدالواحد "تھا اور وہ حقیقت میں ادب کی دولت سے مالا مال ایسا رئیس تھا جس کی دہلیز پر بے شمار قد آور شخصیات کی حاضری روزانہ ہوتی تھی . اناؤنسر شہزاد عامر نے کہا کہ عبداللہ ہلال کی گونج دار آواز صدیوں کے ادبی جمود کو توڑنے کا باعث بنا کرتی تھی. عبداللہ ہلال تند اندھیاروں کا وہ جنگو مثال تھا کہ اگر وہ چند برسوں اور حیات پا جاتا تو خورشید درخشاں کی صورت اپنی روشن و منور کرنوں سے دنیائے ادب میں مزید روشنی بکھیر سکتا تھا. آج اسے گزرے ہوئے پانچ سالوں کا عرصہ بیت رہا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ابھی کل کی بات ہے. کہیں بیٹھے بیٹھے اچانک یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھیڑ سے نکل کر ہمارے سامنے آن موجود ہوگا اور جب اس کی آمد خواب گم گشتہ کی صورت آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے تو ذہن میں فورأ یہ شعر گونج اٹھتا ہے کہ
ویراں ہے میکدہ, خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں