ملک کے نازک حالات کے تناظر میں ڈاکٹر خالد پرویز کا بامقصد فکر انگیز خطاب , زندہ باد ، مردہ باد چھوڑ کر مجلس اتحادالمسلمین کے مقصد کو سمجھنے پر زور دیا,
مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری پر مذمتی تجویز کو حاضرین نے ہاتھ اٹھا کر منظوری دی,
مالیگاٶں (نامہ نگار ) یہاں کے سیلانی چوک میں مجلس پاسبان آٸین کے تحت منقعدہ استقبالیہ تقریب عظیم الشان جلسے کی شکل اختیار کر گٸی ۔ ہجوم کا یہ عالم تھا کہ لوگ اسٹیج کے پیچھے اور اطراف کی گلیوں میں کھڑے نظر آئے ۔ یہ تقریب استقبالیہ خلیل بھاٸی بیکری والا کے اعزاز میں منعقد کی گٸی جس کی صدارت مجلس اتحادالمسلمین کے شمالی مہاراشٹر کے صدر الحاج ڈاکٹر خالد پرویز نے گرووار وارڈ مجلس کی صدارت سونپی ۔ اس تقریب استقبالیہ کی صدارت شہر کی مشہور شخصیت محترم حاجی جمیل اختر (لبیک آر او واٹر) نے کی جبکہ نظامت کے فراٸض اسمعیل سردار صاحب نے کی جبکہ ترجمان مجلس سمیر سر ، غازی امان اللہ خان ، مجاور مالیگانوی کے علاوہ وارڈ نمبر 18 کی مشہور و معروف شخصیات رونق اسٹیج تھیں ۔
حاضرین کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کرتے ہوٸے ڈاکٹر خالد پرویز نے ملک میں جاری حالات و واقعات بیان کرتے ہوٸے کہا کہ آج ملک میں ایک منظم سازش کے تحت ناگفتہ بہ حالات پیدا کیۓ جارہے ہیں ۔ مسلمانوں کے سرکردہ افراد کو مختلف جھوٹے الزامات لگاکر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے ۔ مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کے خلاف حاضرین کی مکمل تاٸید سے ایک مذمتی تجویز منظور کی گٸی ۔ ڈاکٹر خالد پرویز نے کہا کہ مولانا کلیم صدیقی پر مختلف الزامات لگا کر انکو گرفتار کرلیا گیا اور کورٹ کے حکم مطابق 10 دن کی پولیس کسٹڈی دے دی گٸی ۔ ڈاکٹر ذاکر ناٸیک پر بھی یہی الزام لگایا گیا تھا ۔ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کرنے والوں پر کورونا پھیلانے کا الزام لگایا گیا ۔ اور تبلیغی جماعت پر پابندی عاٸد کرنے کی بات کی جانے لگی لیکن اشتعال انگیز نعرے لگانے والوں اور ملک میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے والی فسطاٸی طاقتوں بجرنگ دل ، آر ایس ایس ، وشوہندو پریشد اور ہندو سینا جیسی تنظیموں کے خلاف کوٸی کاروائی نہیں کی جاتی ۔ کبھی این آر سی کے نام پر مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے کبھی تین طلاق کی آڑ میں شریعت میں مداخلت کی جاتی ہے اور احتجاج کرنے والے اور فرقہ پرستوں کے ظلم کا شکار بننے والے معصوم مسلمانوں پر ہی کیس درج کرکے جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے ۔ حکومت وقت کو للکارتے ہوٸے کہا ہم اس ملک مں باپ دادا کے زمانے سے رہتے آئے ہیں ۔ ہمارے اجداد نے یہیں کی مٹی کو اپنا کفن بنایا ۔ ہم مرنے کے بعد بھی اس مٹی میں ہی رہیں گے ۔ فرقہ پرست تنظیموں کا ہمیں اس ملک سے نکالنے کا خواب خواب ہی رہ جاۓ گا ۔ قوم کو پیغام دیتے ہوٸے ڈاکٹر خالد پرویز نے کہا کہ آج وقت بیدار رہنے ، صحیح سیاسی فیصلے کرنے اور سیاسی جہاد کا ہے ۔ ہمارے غلط فیصلوں سے ہم آج یہ دن دیکھ رہے ہیں ۔ ہمیں بیدار رہنے ، صحیح سیاسی فیصلے کرنے اور سیاسی جہاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم آج نہیں جاگے تو ہماری آٸندہ نسلوں کا مستقبل تباہ و بربا ہجاۓ گا ۔ قومی میڈیا کا کردار بیان کرتے ہوٸے ڈاکٹر خالد نے کہا کہ گودی میڈیا ملک کے سلگتے مساٸل کو چھوڑ کر نازک معاملات کو خوب اچھال کر آگ میں گھی ڈالنے کا کام کررہا ہے ۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی کے سوا ظلم کے خلاف کوٸی لڑنے اور آواز اٹھانے کو تیار نہیں ۔ اسی لیۓ فرقہ پرست جنونی تنظیمیں ان کی آواز بند کرنے کے درپے ہیں ۔ اسدالدین اویسی کے مکان پر تین حملے ، اتر پردیش میں ان پر تین مقدمے اس بات کا ثبوت ہیں ۔ کیونکہ اسدالدین اویسی میدانوں سے لے ایوانوں تک گونجتے ہیں اور مظلوموں ، محروموں کی آواز بند کرتے ہیں ۔ لیکن ان پر B ٹیم ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور ہمارے اپنے کچھ لوگ ان باتوں پر یقین کرلیتے ہیں ۔ جنہوں نے ستر سال تک مسلسل ہم پر ظلم کیا ہمارا استحصال کیا ہم ان پر ہی تکیہ کیۓ ہوئے ہیں ۔ ہم اپنی تباہی کے فیصلے خود کررہے ہیں ۔ اپنے آپ کو خود ہی مقتل میں پیش کرکے نام نہاد سیکولروں کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ مجلس کے نظریات کے پھیلاٶ کے بارے میں کہا کہ ہم نے آنے والے وقت کی آہٹ کو محسوس کرکے مجلس کے نظریات کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کو اپنا نصب العین بنالیا ہے ۔ اور پارٹی ہائی کمان نے ہم پر اعتماد کرکے ایسی ذمہ داری دی کہ آج تک شہر مالیگاؤں میں اتنی بڑی ذمہ داری اور عہدہ کسی اور پارٹی کے ماننے والوں کو نہیں ملا ۔
کانگریس اور اس سے جنم لینے والی راشٹروادی کانگریس اپنی تباہی کے لیۓ خود ذمہ دار ہیں ۔ راہل گاندھی اپنی آبائی سیٹ سے الیکشن نہیں جیت سکے ۔ اسے ایک اداکارہ نے ناچنے گانے والی نے شکشت سے دوچار کردیا ۔ شہر کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے شہر کے مساٸل کو بیان کیا اور کارپوریشن برسراقتدار کی ناکامیوں کا شمار کرتے ہوئے کہا کہ صرف اپنا اقتدار بچانے اور ٹھیکیداری کرکے مال جمع کرنے کے لئے تعمیر و ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے ۔ جبکہ شہر کا یہ حال ہے کہ ذرا سی بارش میں سڑکیں پانی سے لبریز ہوجاتی ہیں ۔ گٹروں گندہ کا پانی سڑک پر آجاتا ہے ۔ شہر میں وبائی بیماریوں کا زور ہے ۔ اور ناندیڑی اسکول ، جعفر نگر وغیرہ میں تیار شدہ ہاسپٹل جاری کرنے کے لئے ان کے پاس وقت اور روپیہ نہیں ہے ۔ بلکہ پہلے سے جاری علی اکبر کی تعمیر جدید کے لئے وقت اور روپیہ آجاتا ہے ۔ شیخ رشید خانوادے پر تنقید کرتے ہوٸے ببانگ دہل کہا کہ شہر میں تخریبی سیاست اسی خاندان کی دین ہے ۔ اپنے گھر کے افراد کو گھروں میں بیٹھا کر قوم کے سرمایہ اور قوم کے مستقبل سمجھے جانے والے نوجوانوں کو اپنے سیاسی مفاد کے لئے آپس میں لڑوانے کی سیاست کررہے ہیں ۔ اگر ان میں اتنی ہی ہمت اور مردانگی ہوتی تو ہمارے مقابلے میں یہ لوگ اپنے گھر کے افراد کو لاتے ۔ ہم ان سے ہر طرح سے مقابلے کے لیۓ تیار ہیں ۔ نوجوانوں کو فکر آمیز پیغام دیتے ہوٸے کہا کہ آپ لوگ ایسے لوگوں کی گندی اور تخریبی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھیں ۔ جب وقت آٸے گا تو ان سے خود ہی نپٹ لیں گے ۔ آپ لوگ انکی سیاست کا ایندھن بننے کی بجاۓ وارڈ کے مساٸل ، اپنے اہل و عیال کی تعلیمی ، معاشی اور سماجی ترقی کی کوشش کریں ۔ ہم نے کبھی نوجوانوں کو زندہ باد مردہ باد اور ورغلا کر آپس میں لڑوانے اور اپنا سیاسی مفاد نکالنے کی سیاست نہیں کی ۔ آج شہر کی عوام نے ہمارا تاریخی استقبال کیا تو انکے پیٹ میں مروڑ ہونے لگا ۔ لیکن انکو یہ نہیں پتہ کہ نقل کے لیۓ عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ عوام کے پیسوں کو لوٹ کر یہ اپنا الو سیدھا کررہے ہیں ۔ ڈی جے بجواکر نوجوانوں کو نچوا رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے 23 سالہ اقتدار میں بلی پترا قرض معاف نہیں کرواسکے ۔ بچت گٹ اسکیم کے نام پر خواتین کو بےوقوف بنارہے ہیں ۔ شہید عبدالحمید روڈ کا بجٹ غاٸب کردیۓ ۔ اور صحافیوں کے سوال کرنے پر پریس کانفرنس میں سوال کرنے والوں ڈانٹ کر خاموش کردیا جاتا ہے ۔ ان کے کالے کارنامے اتنے ہیں کہ لکھتے لکھتے قلم کی روشناٸی خشک ہو جاۓ گی ۔ گرووار وارڈ کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ یہ وارڈ ہمارا ہے ، یہاں کے لوگ ہمارے ہیں ، ہم نے یہاں رہاٸش اختیار کی ۔ یہاں کےلوگوں نے ہم کو عزت دی ، ہم کو اپنا پیار دیا اور اس وارڈ کو مثالی ، ترقی یافتہ ، اور سہولتوں سے آراستہ کرنے کےلیۓ ہم آپ سے اسی پیار اور اپناٸیت کی امید رکھتے ہیں جیسا کہ چار سال قبل ہم کو ملی تھی ۔ یہاں کے لوگوں کو آگرہ روڈ کے اُس پار کی قیادت کی ضرورت نہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں