لقطہ (گری پڑی چیز کے اٹھانے کا حکم)
شفیع احمد قاسمی خادم التدريس جامعہ ابن عباس احمد آباد گجرات
بسا اوقات راستہ چلتے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی چیز پڑی ہوئی ہے اور اس کا کوئی مالک وہاں موجود نہیں ہے، پڑی ہوئی چیز خواہ پیسے کی شکل میں ہو یا سامان کی صورت میں ، اسے اس کے مالک تک پہنچانے کی غرض سے اٹھالینا چاہیے، اور اگر اسے اپنے نفس پر اطمنان نہ ہو تو اس کے لیے اس سامان کا اٹھانا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے، بہرحال جب اسے پہنچانے کی غرض سے اٹھائے تو لازماً ایک یا دو عادل و منصف آدمی کو گواہ بنالے، یہ حتمی اور واجب ہے، لیکن یاد رہے کہ اس چیز کو اٹھاتے وقت گواہ بنانا صرف امانت و ضمان کے درمیان فرق امتیاز کیلئے ہے تاکہ اٹھائی ہوئی چیز کی ہلاکت کی صورت میں اٹھانے والے پر ضمان لازم آئے گا کہ نہیں،
پڑی ہوئی چیز کا اٹھانے والا دوصورتوں میں ضمان سے بری ہوسکتا ہے، اول اٹھاتے وقت گواہ بنالے، پھر اس کے پاس سے سامان ہلاک ہوجائے تو اس پر کوئی ضمان نہیں، دوم اٹھاتے وقت گواہ تو اس نے نہیں بنایا ، تاہم ہلاکت کے بعد مالک نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ اس نے سامان مجھ تک پہنچانے ہی کی غرض سے اٹھایا تھا، تب بھی اس سے ضمان ساقط ہوجائے گا، بہرحال جب مالک ملتقط کی تکذیب کردے، اور اس بات کا صاف انکار کردے کہ اس نے سامان مجھ تک پہنچانے کیلئے نہیں اٹھایا ہے، تو اس وقت بھی اس پر ضمان واجب وضروری ہوگا،
چنانچہ اس سلسلے میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اپنی مایہ ناز کتاب،، بذل المجہود میں رقمطراز ہیں،
ان الاشھاد عند الحنفیۃ لتعیین جھۃ الامانۃ و رفع الضمان فقط، واختلف فیہ فعند ابی حنیفۃ إذا اشھد لاضمان علیہ، وإذا لم یشھد وصدقہ المالک بان الملتقط اخذہ لیردہ علی مالکہ فتصدیقہ یرفع الضمان، وأما إذا کذبہ وکان الملتقط لم یشھد علیہ فعلیہ الضمان حینئذ ایضاً،
بذل المجہود ج؛ ٦/ص ؛ ٥٩٥
البتہ گواہ بنانے کی کیفیت میں دو اقوال ہیں، پہلا قول یہ ہے کہ صرف اس بات پر گواہ بنائے کہ اس نے پڑی ہوئی چیز کو اس کے مالک تک پہنچانے کی غرض سے اٹھایا ہے، اور سامان کی علامتوں کو بالکل نہ بتلائے، کہ مبادا کوئی جھوٹا بد نیتی سے اس سامان کی وصولی کے لیے آدھمکے،
دوسرا قول یہ ہے کہ اٹھائے گئے سامان کے سارے اوصاف پر گواہ بنالے، خدا ناخواستہ اگر اٹھانے والے کی موت ہوگئی، تو اس کے وارثین اس چیز پر تصرف نہ کرلیں،
اس سلسلے میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ شوکانی کی عبارت نقل کی ہے، ملاحظہ فرمائیں
وفی کیفیۃ الاشھاد قولان احدھما یشھد انہ وجد لقطۃ ولا یعلم بالعفاص ولا غیرہ لئلا یتوسل بذالک الکاذب الی اخذھا والثاني یشھد علی صفاتها کلھا حتی اذا مات لم یتصرف فیھا الوارث،، حوالہ بالا
لیکن سوال یہ ہے کہ پڑی ہوئی چیز کو اٹھا لیا، اب کیا کرے،
اس کا بے غبار اور صاف جواب ابوداؤد شریف کی حدیث کے اس ٹکڑے میں ملاحظہ فرمائیں
عن زید بن خالد الجھنی؛ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن اللقطۃ فقال عرفھا سنۃ فإن جاء باغیھا فادھا الیہ وإلا فاعرف عفاصھا و وکاءھا ثم کلھا فان جاء باغیھا فادھا الیہ ؛ الخ بذل المجھود؛ حدیث نمبر (١٧٠٧)
حضرت زید بن خالد جھنی سے منقول ہے، کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے متعلق دریافت کیا گیا ، تو جوابا آپ نے ارشاد فرمایا؛ سال بھر اسکی تشہیر کرو، پھر اگر تلاش کرتے ہوئے اس کا مالک آجائے، تو اس کا سامان اسے حوالے کردو، ورنہ (سال بھر تک تشہیر کے بعد اگر اس کا مالک نہ آئے ) تو تم اس کے ڈھکن اور تھیلی کی شناخت کرلو،اور اسے کھا جاؤ، اس کے بعد پھر اگر وہ اپنے سامان کو ڈھونڈتے ہوئے آدھمکے، تو اسے اس کا سامان لوٹا دو،
حدیث پاک کی روشنی میں چند باتیں قابلِ لحاظ ہیں، اول؛ سال بھر تک اس کی تشہیر کی جائے گی، اس سلسلہ میں حنفیہ کی تین روایتیں ملتی ہیں، پہلی روایت ؛ بلا کسی فرق کے سال بھر اس کا اعلان کیا جائے گا، اور یہی جمہور کا مسلک ہے، واضح رہے کہ اس درمیان اگر کوئی شخص آکر کہے کہ یہ سامان ہمارا ہے، اور وہ اس کی صحیح صحیح علامتوں کو بھی بتلادے تو اس کے ذمہ سامان کا دینا واجب و ضروری نہیں ہے، صاحب بذل نے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمھما اللہ فرماتے ہیں، کہ ملتقط کے دل میں اگر اس شخص کی صداقت و سچائی واقع ہوجائے، تو اس کیلئے دینا جائز ہے، ورنہ بغیر گواہ پیش کئے اسے اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا،
دوسری روایت؛ اگر سامان دس درھم سے کم کا ہو تو چند ایام ہی اس کی تشہیر کی جائے گی، اور اگر دس درہم سے زائد مقدار کی ہو تو سال بھر تک اس کی تشہیر ہوگی،اور صاحب ہدایہ نے اس قول کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی ایک روایت ہے، اور تیسری روایت؛ اور اسے بھی صاحب ہدایہ نے ذکر کی ہے، اور وہ یہ کہ ان میں سے کوئی مقدار لازم نہیں ہے، بلکہ پڑی ہوئی چیز کے اٹھانے والے کی رائے پر چھوڑ دیا جائے گا، وہ اس حد تک اعلان کرے کہ اسے غالب گمان یہ ہوجائے کہ اب سامان کا مالک اسے نہیں ڈھونڈے گا، پھر وہ اسے صدقۃ کردے،
بذل المجہود؛ ج ٦/ص ؛٥٧٥
حدیث شریف سے دوسری چیز بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ مقررہ میعاد تک تشہیر کے بعد اگر کوئی ڈھونڈنے والا نہ آئے، تو اسے استعمال کرلے، اور یہ اس کیلئے مباح وحلال ہے،
اس سلسلے میں قابلِ لحاظ امر یہ ہے کہ لقطہ اٹھانے والے شخص کیلئے تب حلال ہے جبکہ وہ خود صدقۃ کا محل اور حاجت مند فقیر ہو، تو اسے اپنے اوپر خرچ کرنا مباح ہے، ملاحظہ فرمائیں
فإذا کان الملتقط محلا للصدقۃ فقیرا ذاحاجۃ، اباح لہ التصدق علی نفسہ؛ بذل: ٥٨٣؛
اور اگر اٹھانے والا( ملتقط) غنی ہو، تو اس کیلئے اس سے انتفاع جائز نہیں ہے، إذا کان الملتقط غنیا، لایجوز لہ الانتفاع بھا ؛ حوالہ بالا؛ ص؛ ٥٧٧ ؛
اب رہی یہ بات کہ اگر مفلس ونادار ہونے کی بناء پر وہ صدقۃ کا محل تھا اور اس نے اپنے اوپر ہی خرچ کرلیا، پھر اس مالک کا ڈھونڈتے ہوئے آپہونچا، تو ایسی صورت میں اس سامان کا بدل واپس کرنا ضروری ہے، کیوں کہ یہ چیز اس کے ہاتھ امانت تھی،
صاحب بذل فرماتے ہیں،
ان اللقطۃ ودیعۃ عند الملتقط، إذا تصرف فیھا یجب ردھا علی صاحبھا ان کانت قائمۃ، وان استھلکت یجب بدلھا ؛ص ؛٥٨٩
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے ہر شعبے پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں