![]() |
موجودہ دور میں قربانی کا مفہوم تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے ! جانوروں کی بےجا نمائش اور گوشت کی تقسیم کاری پر امت مسلمہ کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت !!
خیال اثر مالیگانوی
امت مسلمہ کے دو عظیم تہوار ہیں. اول رمضان کے تیس روزوں کا انعام عید الفطر کی شکل میں مسلمانوں کو عطا کیا گیا ہے. دوسرا عظیم تہوار عید الاضحی کی شکل میں قربانی و ایثار کا مظہر قرار دیا گیا ہے. آغاز اسلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ندائے غیبی کے ذریعے حکم دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں قربانی کا فریضہ انجام دیا جائے. بس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس ندائے غیبی کو مقدم جانتے ہوئے اللہ کی راہ میں سینکڑوں اونٹ قربان کر دیئے. اس قربانی کے بعد دوبارہ ندائے غیبی کی پکار پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سینکڑوں اونٹ قربان کئے لیکن مصلحت خدا وندی کسی اور شئے کی طلبگار تھی. پھر ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بشارت ہوئی کہ اللہ کی راہ میں اپنی سب سے عزیز شئے کی قربانی کی جائے تو حضرت ابراہیم نے اپنی سب سے عزیز شئے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے کشاں کشاں لئے چلے. قربان گاہ تک حضرت اسماعیل اپنے والد محترم سے بار بار پوچھتے رہے کہ ابا حضور ہم کہاں جارہے ہیں. ہر سوال کے جواب میں حضرت ابراہیم اپنے لخت جگر کو مطمئن کرتے ہوئے کہتے رہے کہ ہم اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے فریضہ قربانی انجام دینے جارہے ہیں پھر قربان گاہ تک پہنچنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل کو پہلو کے بل لیٹا دیا. حضرت اسماعل علیہ السلام کے ہاتھ پاؤں رسی کی مدد سے جکڑ دئیے. حضرت اسماعیل نے پھر سوال کیا کہ یہ کیا ہے .جوابأ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تبارک تعالی کا حکم ہے کہ میں اپنی سب سے عزیز شئے اس کی راہ میں قربان کردوں پس اے میرے عزیز از جان مجھے دنیا میں تم سے عزیز کوئی شئے نہیں. میں نے اونٹ جیسے سینکڑوں جانور حکم خدا وندی پر قربان کئے لیکن میرا خدا مجھ سے میری سب سے عزیز شئے کی قربانی کا طلبگار ہے اور مجھے تم سے زیادہ عزیز کوئی دوسری شئے نہیں اس لئے میں تمہیں اپنے رب کے حکم سے قربان کرتے ہوئے سرخرو ہونا چاہتا ہوں. یہ سنتے ہی حضرت اسماعیل علیہ السلام مطمئن اور شاد ہوتے ہوئے فرمایا کہ ابا حضور میرے حلقوم پر چھری چلانے سے پہلے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لینا ورنہ تمہاری آنکھوں اور دلوں میں پدرانہ شفقتیں عود آئیں گی اور تمہارے ہاتھ کانپ کانپ جایئں گا. اپنے فرزند ارجمند کی یہ بات سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور تیز دھار چھری کی مدد سے اپنے لخت جگر کے حلقوم پر جیسے ہی چھری چلانے کی کوشش کی مشیت ایزدی یکا یک جوش میں آئی اور خلد بریں سے روانہ کردہ ایک دنبہ حضرت اسماعیل کی جگہ آن موجود ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے حلقوم پر اپنے لخت جگر کا حلقوم جان کر چھری پھیر دی. مطمئن و شاد ہونے کے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو رحمت خدا وندی پر سجدہ شکر بجا لایا.
اس قربانی اور حکم خدا وندی پر عمل آوری کے لئے امت مسلمہ کے ہر صاحب استطاعت پر قربانی واجب قرار دی گئی ہے ساتھ ہی قربانی شدہ جانور کے گوشت کو عزیز و اقرباء اور مساکین میں تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے. وہ دن تھا اور آج کا دن ہے کہ سال بہ سال عید الاضحی کی آمد کے پیشتر ہی شہر و قصبہ جات میں قربانی کے جانوروں کی آمد تیز ہوجاتی ہے. صاحب استطاعت افراد فربہ و صحت مند جانور خریدنے کو اولیت دیتے ہوئے مہینوں پہلے ہی جانوروں کی خریدی کرتے ہوئے انھیں مزید صحت مند بنانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور ان کی پروش و پرداخت میں اپنی محبت کا لہو شامل کرکے قربان کئے جانے والے جانوروں سے محبت و انسیت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں. قربانی کا یہ مقدس فریضہ صدیوں سے رائج ہے لیکن اس کے پس پشت وہ جذبہ وہ اخلاص رفتہ رفتہ مفقود ہوتا جارہا ہے. آج امت مسلمہ صحت مند و فربہ بیش قیمت جانور خرید کر ان کی بے جا نمائش میں شب و روز مصروف رہتی ہے. قربانی کے جانوروں کا گوشت عزیز و اقرباء اور مساکین میں تقسیم کرنے کی بجائے خود کی دسترش میں رکھ لیا جاتا ہے. خدا وند قدوس کی خوشنودی کی بجائے آج قربانی نمود و نمائش کا مظہر بن کر رہ گئی ہے. اب نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا وہ نیک جذبہ باقی رہا نہ ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ جذبہ ایثار اور نہ ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ خبر گیری اور نہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کہ آج کے دور پر آشوب میں.........
یہ امت خرافات میں کھو گئی. قربانی کے بعد جب گوشت کی تقسیم کاری کا موقع آتا ہے تو خود سے مالدار ترین افراد کو اولیت دیتے ہوئے ان تک بہترین گوشت کی ترسیل کی جاتی ہے. غریب رشتہ دار , بیوہ اور یتیموں کو بھلا دیا جاتا ہے. قربانی کا یہ انداز اور امت مسلمہ کے یہ اطوار ثابت کرتے ہیں کہ قربانی کا وہ جذبہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں موجزن تھا آج امت مسلمہ کےدلوّں سے کسی سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے اور آج کی امت مسلمہ نے قربانی کا مفہوم بدلتے ہوئے اسے نمائش پسندی کا نام دے دیا ہے. اس نمائش پسندی کو ہرگز ہرگز عبادت اور حکم خداوندی پر عمل آوری کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ......
ہم عبادت کا صلہ پائیں تو پائیں کیسے
ہم نے سجدے نہیں سجدوں کی نمائش کی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں