![]() |
| خیال اثر مالیگانوی |
ایک اور عید الفطر کی خوشیوں پر کورونا کا خوف نمایاں !
عید ایک بار پھر پابندیوں میں جکڑی ہوئی خوشیوں کی نوید لے کر آئی ہے!!!
تحریر : خیال اثر مالیگانوی
امت مسلمہ کا سب سے عظیم تہوار عید الفطر کی دستکیں مسلمانان ہند کے در و دیوار پر اپنی آمد سے گونج پیدا کررہی ہیں .لفظ عید عود سے مشتعمل ہے جس کے معنی عود کر آنا یعنی دوبارہ لوٹ کر آنا ہے لیکن سال گزشتہ کی طرح امسال بھی عید الفطر کا یہ عظیم تہوار کوویڈ 19 کی تاریک پرچھائیوں کے گھیرے میں ہے. کورونائی یلغار بے شمار قیمتی جانوں کو نذر آتش اور سپرد خاک کرنے کے در پے ہے. عید جیسا عظیم تہوار مسلمانوں کے لئے رمضان المبارک کے ماہ مقدس اور روزوں, عبادت و تلاوت, زود و تقوی اور ریاضتوں کاانعام ہوتا ہے. عید گاہوں پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد معانقہ اور پھر گھر واپسی کے بعد شیر خورمہ کی شیرینی خویش و اقارب کی دعوتیں چھوٹے بچوں کے لئے عیدی کا اہتمام سب کے سب پر لاک ڈاؤن نے قدغن لگا دیا ہے. نئے عائد شدہ قوانین نے مہمانوں کی آمد پر بھی پابندیاں لگا دی ہیں جس کی وجہ سے نہ تو بیٹیاں اپنے میکے آ سکتی ہیں نہ بہوؤیں اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے ملاقات کے لئے جا سکتی ہیں. کورونا اور لاک ڈاؤن نے عجیب و غریب خوف و ہراس کا ماحول طاری کر رکھا ہے. ہر کوئی ایک دوسرے سے بدظن دکھائی دیتا ہے یہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کسی کا نہیں. سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن کر رہ گئے ہیں. یہ دوسری عید اور رمضان ہے جو کوویڈ 19 اور لاک ڈاؤن کے سائے تلے سسک رہا ہے. عالم یہ ہے کہ شیر خورمہ اور سیویوں کی مٹھاس پر تلخیاں حاوی ہو گئی ہیں. کورونا نے معصوم چہروں کی مسکانیں چھیں لی ہیں. خواتین کے آرائش و زیبائش دیکھنے کے لئے آئینے ترس رہے ہیں. اس خوف و ہراس کے عالم میں فوت ہو جانے والے افراد کے اہل خانہ چشم پر نم سے اپنے عزیزوں کے کھو جانے پر ماتم کناں ہیں تو بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو مختلف اسپتالوں میں مٹھی بھر سانسوں کے لئے تڑپ تڑپ کر ہلکان ہورہے ہیں. لا تعداد کورونا متاثرین لب گور ہیں. یہ ہماری صدی کا المیہ ہے کہ قبرستانوں میں تدفین کے لئے دو گز زمین دستیاب نہیں ہے تو شمشان بھومیوں میں چتائیں جلانے کے لئے لکڑیوں کی عدم دستیابی پر نوحہ خوانیاں بپا ہیں.ملازم پشیہ افراد اپنے اہل خانہ سمیت گھر واپسی کی تیاریاں کرتے ہوئے جوق در جوق پا پیادہ نکل کھڑے ہوئے ہیں. گھر واپسی کے لئے پا پیادہ نکل کھڑے ہونے والے اژدھام کو دیکھ کر بالکل ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستان پاکستان بٹوارے یا پھر ہندوستان کی ایک اور تقسیم کا سانحہ در پیش ہو. ایسے ہوش ربا عالم میں ارباب حکومت کے تمام تر بلند بانگ دعوے لکیر کے فقیر ثابت ہورہے ہیں. دنیا کی تیسری عظیم طاقت بننے کا دعوی کرنے والا ہندوستان آج کسمپرسی کے عالم میں نوحہ خواں ہے تو دعاؤں کا طلبگار بھی لیکن المیہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں نے عبادت اور دعاؤں پر بھی پابند عائد کر رکھی ہیں. مسجدوں پر تالا بندی نے نمازوں کا اہتمام, دعاؤں کی قبولیت اور تسبیح کی دانوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو غیب سے کس طرح اور کیسے رحتموں کا نزول ہوگا. تائید غیبی کا فیض کس طرح نوع انسانی تک پہنچے گا. ایسے ہو کے عالم میں جب کہ چہار جانب سناٹوں اور ماتم کا ہوش ربا رقص ابلیسی جاری ہے تو عید کی خوشیاں اپنا آہنگ نشاط کسطرح بانٹ سکتی ہیں. ہر ایک شخص کورونا اور لاک ڈاؤن کے حصار میں جکڑا مجبوری و بےکسی کی تصویر بنا ہوا ہے. عبادت گزار افراد اللہ رب العزت سے رحمتوں کے طلبگار ہیں تو گناہ گار اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے بے تاب ہیں .معصوموں کے لبوں پر دعائے خیر کے کلمات گونج رہے ہیں تو خدائے تعالی کی کبریائی بھی جوش میں ہے. امت مسلمہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو پھیلائے لرزیدہ لبوں سے آہ و فغاں کرتے ہوئے دعا میں مصروف ہےکہ اے خالق ارض و سما...... مالک لوح و قلم وہ شہشوار بھیج جو روح میں کشتی اتار دے. خیر عید کی آمد نے امت مسلمہ کے پژمردہ چہروں پر چند لمحوں کے لئے ہی سہی الوہی مسکراہٹیں بکھیر تو دی ہیں. معصوموں کا بچپن رنگ برنگے کپڑوں میں مثل گلاب اپنی مہکاریں بکھیر تو رہا ہے. نازنینان وقت کو بناؤ سنگھار کا ایک موقع اور دستیاب ہو گیا ہے. روزہ داروں کو اپنی عبادت اور روزوں کا انعام تو عید کی صورت مل گیا ہے لیکن خوشیوں کی اس ساعت بیش بہا میں بچھڑے ہوؤں کا ماتم بھی آنکھوں آنکھوں پر نم کئے جارہا ہے. یہ دوسری عید ہے جو پابندیوں میں جکڑی ہوئی خوشیوں کی نوید لے کر آئی ہے. بے شمار پابندیوں کے باوجود نماز عید الفطر کی ادائیگی کے بعد دعائے خیر طلب کرتے ہوئے امت مسلمہ ہاتھ اٹھائے یہی دعا کررہی ہے کہ اے خدائے بزرگ و برتر اس کڑے وقت سے ہمیں نجات عطا کر اور دوبارہ ایسی عیدیں نصیب نہ کرنا جس میں ہمیں پابند سلاسل کرتے ہوئے عید کی مسرتوں سےدور کردیا جائے. ہماری عبادتوں پر قدغن لگا دیا جائے.
تحریر : خیال اثر مالیگانوی
امت مسلمہ کا سب سے عظیم تہوار عید الفطر کی دستکیں مسلمانان ہند کے در و دیوار پر اپنی آمد سے گونج پیدا کررہی ہیں .لفظ عید عود سے مشتعمل ہے جس کے معنی عود کر آنا یعنی دوبارہ لوٹ کر آنا ہے لیکن سال گزشتہ کی طرح امسال بھی عید الفطر کا یہ عظیم تہوار کوویڈ 19 کی تاریک پرچھائیوں کے گھیرے میں ہے. کورونائی یلغار بے شمار قیمتی جانوں کو نذر آتش اور سپرد خاک کرنے کے در پے ہے. عید جیسا عظیم تہوار مسلمانوں کے لئے رمضان المبارک کے ماہ مقدس اور روزوں, عبادت و تلاوت, زود و تقوی اور ریاضتوں کاانعام ہوتا ہے. عید گاہوں پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد معانقہ اور پھر گھر واپسی کے بعد شیر خورمہ کی شیرینی خویش و اقارب کی دعوتیں چھوٹے بچوں کے لئے عیدی کا اہتمام سب کے سب پر لاک ڈاؤن نے قدغن لگا دیا ہے. نئے عائد شدہ قوانین نے مہمانوں کی آمد پر بھی پابندیاں لگا دی ہیں جس کی وجہ سے نہ تو بیٹیاں اپنے میکے آ سکتی ہیں نہ بہوؤیں اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے ملاقات کے لئے جا سکتی ہیں. کورونا اور لاک ڈاؤن نے عجیب و غریب خوف و ہراس کا ماحول طاری کر رکھا ہے. ہر کوئی ایک دوسرے سے بدظن دکھائی دیتا ہے یہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کسی کا نہیں. سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن کر رہ گئے ہیں. یہ دوسری عید اور رمضان ہے جو کوویڈ 19 اور لاک ڈاؤن کے سائے تلے سسک رہا ہے. عالم یہ ہے کہ شیر خورمہ اور سیویوں کی مٹھاس پر تلخیاں حاوی ہو گئی ہیں. کورونا نے معصوم چہروں کی مسکانیں چھیں لی ہیں. خواتین کے آرائش و زیبائش دیکھنے کے لئے آئینے ترس رہے ہیں. اس خوف و ہراس کے عالم میں فوت ہو جانے والے افراد کے اہل خانہ چشم پر نم سے اپنے عزیزوں کے کھو جانے پر ماتم کناں ہیں تو بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو مختلف اسپتالوں میں مٹھی بھر سانسوں کے لئے تڑپ تڑپ کر ہلکان ہورہے ہیں. لا تعداد کورونا متاثرین لب گور ہیں. یہ ہماری صدی کا المیہ ہے کہ قبرستانوں میں تدفین کے لئے دو گز زمین دستیاب نہیں ہے تو شمشان بھومیوں میں چتائیں جلانے کے لئے لکڑیوں کی عدم دستیابی پر نوحہ خوانیاں بپا ہیں.ملازم پشیہ افراد اپنے اہل خانہ سمیت گھر واپسی کی تیاریاں کرتے ہوئے جوق در جوق پا پیادہ نکل کھڑے ہوئے ہیں. گھر واپسی کے لئے پا پیادہ نکل کھڑے ہونے والے اژدھام کو دیکھ کر بالکل ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستان پاکستان بٹوارے یا پھر ہندوستان کی ایک اور تقسیم کا سانحہ در پیش ہو. ایسے ہوش ربا عالم میں ارباب حکومت کے تمام تر بلند بانگ دعوے لکیر کے فقیر ثابت ہورہے ہیں. دنیا کی تیسری عظیم طاقت بننے کا دعوی کرنے والا ہندوستان آج کسمپرسی کے عالم میں نوحہ خواں ہے تو دعاؤں کا طلبگار بھی لیکن المیہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں نے عبادت اور دعاؤں پر بھی پابند عائد کر رکھی ہیں. مسجدوں پر تالا بندی نے نمازوں کا اہتمام, دعاؤں کی قبولیت اور تسبیح کی دانوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو غیب سے کس طرح اور کیسے رحتموں کا نزول ہوگا. تائید غیبی کا فیض کس طرح نوع انسانی تک پہنچے گا. ایسے ہو کے عالم میں جب کہ چہار جانب سناٹوں اور ماتم کا ہوش ربا رقص ابلیسی جاری ہے تو عید کی خوشیاں اپنا آہنگ نشاط کسطرح بانٹ سکتی ہیں. ہر ایک شخص کورونا اور لاک ڈاؤن کے حصار میں جکڑا مجبوری و بےکسی کی تصویر بنا ہوا ہے. عبادت گزار افراد اللہ رب العزت سے رحمتوں کے طلبگار ہیں تو گناہ گار اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے بے تاب ہیں .معصوموں کے لبوں پر دعائے خیر کے کلمات گونج رہے ہیں تو خدائے تعالی کی کبریائی بھی جوش میں ہے. امت مسلمہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو پھیلائے لرزیدہ لبوں سے آہ و فغاں کرتے ہوئے دعا میں مصروف ہےکہ اے خالق ارض و سما...... مالک لوح و قلم وہ شہشوار بھیج جو روح میں کشتی اتار دے.
خیر عید کی آمد نے امت مسلمہ کے پژمردہ چہروں پر چند لمحوں کے لئے ہی سہی الوہی مسکراہٹیں بکھیر تو دی ہیں. معصوموں کا بچپن رنگ برنگے کپڑوں میں مثل گلاب اپنی مہکاریں بکھیر تو رہا ہے. نازنینان وقت کو بناؤ سنگھار کا ایک موقع اور دستیاب ہو گیا ہے. روزہ داروں کو اپنی عبادت اور روزوں کا انعام تو عید کی صورت مل گیا ہے لیکن خوشیوں کی اس ساعت بیش بہا میں بچھڑے ہوؤں کا ماتم بھی آنکھوں آنکھوں پر نم کئے جارہا ہے. یہ دوسری عید ہے جو پابندیوں میں جکڑی ہوئی خوشیوں کی نوید لے کر آئی ہے. بے شمار پابندیوں کے باوجود نماز عید الفطر کی ادائیگی کے بعد دعائے خیر طلب کرتے ہوئے امت مسلمہ ہاتھ اٹھائے یہی دعا کررہی ہے کہ اے خدائے بزرگ و برتر اس کڑے وقت سے ہمیں نجات عطا کر اور دوبارہ ایسی عیدیں نصیب نہ کرنا جس میں ہمیں پابند سلاسل کرتے ہوئے عید کی مسرتوں سےدور کردیا جائے. ہماری عبادتوں پر قدغن لگا دیا جائے.



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں