src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 30 مارچ، 2025

  دوہرا معیار


سونو ممبئی میں مزدوری کرتا تھا اور عید کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں آیا ہوا تھا۔ گاؤں میں عید کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ بازاروں میں رونق تھی، ہر طرف روشنیوں کی جھلملاہٹ اور چہل پہل تھی۔ دکانوں پر بھیڑ، لوگ کپڑے، جوتے، مٹھائیاں اور دیگر ضروری اشیا خرید رہے تھے۔ چاند رات کا سماں تھا، ہر کوئی خوش تھا اور عید کی تیاریوں میں مصروف تھا۔


اسی شام سونو کی ماں نے اسے گوشت لانے کے لیے کہا۔ اس نے پیسے جیب میں ڈالے اور بازار کی طرف چل دیا۔ راستے میں اس کا پرانا دوست راجو ملا۔ دونوں بہت دن بعد ملے تھے، اس لیے خوش دلی سے حال احوال پوچھنے لگے۔ جب سونو نے بتایا کہ وہ گوشت لینے جا رہا ہے، تو راجو نے کہا، "چلو، میں تمہیں بازار چھوڑ دیتا ہوں، پیدل جانے کی کیا ضرورت ہے؟" سونو نے شکریہ ادا کیا اور راجو کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بازار پہنچ گیا۔


بازار میں کافی رش تھا۔ سونو سیدھا قصائی کی دکان پر پہنچا اور گوشت کی قیمت پوچھی۔ قصائی نے جواب دیا، "۲۰۰ روپے کلو۔" سونو کے برابر میں کھڑے حاجی صاحب، جو اکثر اسی دکان سے خریداری کرتے تھے، حیران ہو گئے۔ وہ قصائی سے بولے، "بھئی، کل تو ۱۸۰ روپے کلو تھا، آج اچانک ۲۰ روپے زیادہ کیسے ہو گئے؟" قصائی نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، "گوشت مہنگا آ رہا ہے، ہم بھی مہنگے میں خرید رہے ہیں، اس لیے دام بڑھ گئے ہیں۔" سونو نے ان کی بات کو نظر انداز کیا اور تین کلو گوشت خرید کر گھر کی راہ لی۔


بازار سے نکل کر سونو رکشے کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔ رکشہ اسٹینڈ پر رش تھا، اور کئی لوگ سواری کے لیے کھڑے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک رکشہ آیا، اور سونو اس میں بیٹھ گیا۔ اتفاق سے وہی حاجی صاحب بھی اسی رکشے میں سوار ہو گئے۔


جب سونو رکشے سے اترا تو اس نے کرایہ پوچھا۔ رکشہ والے نے کہا، "۲۰ روپے۔" سونو نے حیرانی سے کہا، "کل تو ۱۵ روپے تھا، آج اچانک ۵ روپے زیادہ کیوں؟" رکشہ والے نے نرمی سے جواب دیا، "بھائی، گیس کے دام بڑھ گئے ہیں، اس لیے کرایہ بھی بڑھانا پڑا۔"


سونو کو یہ سن کر غصہ آ گیا اور وہ رکشہ والے سے بحث کرنے لگا۔ وہ بضد تھا کہ کرایہ ۱۵ روپے ہی ہونا چاہیے۔ وہ بار بار رکشہ والے کو کہہ رہا تھا کہ وہ غیر ضروری طور پر زیادہ پیسے مانگ رہا ہے۔ تبھی رکشے میں بیٹھے حاجی صاحب، جو ساری صورتحال دیکھ رہے تھے، مسکراتے ہوئے بولے، "بیٹا، گوشت تو تم نے ۲۰ روپے زیادہ قیمت میں لے لیا، وہاں تم نے کچھ نہیں کہا، لیکن جب رکشہ والے نے ۵ روپے زیادہ مانگے تو تمہیں اعتراض ہو رہا ہے؟ یہ بھی تو محنت مزدوری کر رہا ہے، اس کا بھی گھر چلتا ہے، کیا اس کا حق نہیں کہ وہ اپنے بڑھتے اخراجات کے مطابق کرایہ لے؟"


یہ سن کر سونو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے شرمندگی سے ۲۰ روپے ادا کیے اور گھر کی طرف چل پڑا۔


گھر پہنچنے پر اس کی ماں نے اس کے چہرے پر بدلی ہوئی کیفیت دیکھی اور نرمی سے پوچھا، "کیا ہوا بیٹا، کچھ پریشان لگ رہے ہو؟" سونو نے ساری بات ماں کو بتا دی۔ ماں نے مسکراتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور سمجھانے لگی، "بیٹا، یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم اپنی پسندیدہ چیز کے مہنگا ہونے پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، لیکن جب کسی مزدور یا عام آدمی کی مزدوری بڑھتی ہے تو ہمیں اعتراض ہونے لگتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی محنت اور ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔" ماں کی باتیں سن کر سونو نے دل میں عہد کیا کہ آئندہ وہ دوسروں کی محنت کی قدر کرے گا۔


خان استخار 

ایم اے (سال دوم)

مہاراشٹر کالج، ممبئی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages