یہ اولاد آدم کا ہجوم اور نومو فوبیا (Nomophobia )کا شکار ہوتی نوجوان نسل ۔
از - امتیاز رفیق سر
ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل کسی سنگین خطرے سے خالی نہیں.ہر روز ہم اخبارت اور شوشل میڈیا پر اس طرح کی کئی خبریں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ منشیات کا نشہ ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہوجاتی ہے۔ منشیات کی لعنت صرف ہائیر تعلیمی اداروں اور ہائیر سوسائٹی میں ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ ایک فیشن کے طور پر سامنے آرہی ہے۔گاؤں کھیڑے کے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ جس کے انتہائی مضر اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں ۔ راہ چلتے چھوٹے بچے بھی سگریٹ کا دھواں اڑاتے دیکھائی دیتے ہیں۔
اکثر بچے اور نوجوان والدین کی غفلت اور ان کے رویہ کی وجہ سے نشے کی عادت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت اپنے بچوں کو بھی دیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔۔۔کہاں جاتے کس سے ملتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو غلط صحبت ملنے سے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں۔کئی اپنے مسائل سے ڈر کر اور کئی حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لئے بھی نشہ کا سہارا لیتے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان نسل فیشن کے طور پر سگریٹ یا دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال شروع کرتی ہے پھر یہ فیشن یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بن جاتا ہے اور اس طرح وہ شخص مکمل طور پر نشے کاعادی بن جاتا ہے۔ اورپھر اس کے دل و دماغ کو مکمل تباہ و برباد کردیتا ہے ۔ پھروہ شخص ہر وقت نشے میں مدمست رہتا ہے۔ اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہر وہ غلط کام کرنے لگتا ہے جہاں سے پیسے حاصل کرسکے۔ اور اس طرح اچھا بھلا تندرست صحت مند انسان اپنی زندگی کو تباہی کی دہلیز پر لا کر کھڑا کرتا ہے ۔
پوری دنیا منشیات کے خوفناک زہر کے حصار میں ہے۔ نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے لا پرواہ ہوکر تیزی کے ساتھ اس زہر کو مٹھائی سمجھ رہی ہے۔ اور کھائے جارہی ہے۔سگریٹ اور شراب پیتے ہوئے لوگوں کو دوستوں کو دیکھ کر دل مچل جاتا ہے۔جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے ان کی زندگی کو اندھیرے میں ڈال کر ان کی جوانی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر رہا ہے
منشیات کی عادت ایک خطرناک مرض ہے۔ یہ خود انسان کو اور اس کے گھربار کو معاشرے اور پورے ملک و قوم کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر ایک بار کوئی نشہ کرنے کا عادی ہوجائے تو وہ پھنستا ہی جاتا ہے۔اور پھنسے کے بعد اس کے مضر اثرات کا انہیں ادراک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جاری ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آخر کیوں؟؟؟
منشیات ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو انسان کو دنیاو آخرت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے و الا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں میں بھٹکتا ہے۔منشیات کا نشہ پہلے پہل ایک شوق ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ ضرورت بن جاتا ہے۔ نشےکا عادی شخص درد ناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا ہے۔ اس کی موت صرف اس کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی خوشیوں کی خواہشات کی تمناؤں کی بھی موت ہوتی ہے۔کوئی اگر نشہ کرنا شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ، کوئی واقعہ، مایوسی، محرومی اور ناکامی کا کوئی پہلو ہوتا ہوگا۔پر انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مایوسی اور ناکامی کا علاج صرف نشہ کرنا نہیں۔ بلکہ نشہ انسان کی صحت کے لیے زہر ہے۔ آج کل نئے نئے فلیور میں نشہ آور چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔لیکن یہ نشہ انسان کی صحت خراب کرنے کے ساتھ ذہنی طور پر مفلوج کر دیتا ہے۔نشہ بیچنے والے دلال، لوگوں سے، قوم سے، نئی نسل سے پیسے بٹور کر ان کو تباہی کی طرف ڈھکیل دیتے ہیں۔ نسلیں تباہ ہو رہی ہے ہو جائے اُن کی بلا سے انہیں تو صرف نوٹ بٹورنے ہیں. کسی بھی قوم کے لیے اصل قوت اِن کے نوجوان ہوتے ہیں۔ نئی نسل کا جذبہ ہی کسی بھی قوم کو بھرپور ترقی سے ہم کنار کرتا ہے۔ کسی بھی ملک میں نئی نسل کو ملک کی بہتر خدمت کے لیے بھرپور انداز سے تیار کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔صرف معاشی ترقی کے لئے ہی ضروری نہیں ہوا کرتی بلکہ ملک کے دفاع میں بھی اس کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو سرحدوں پر رات دن جاگ کر ملک کو دشمنوں سے بچاتے ہیں۔ ملک کی آزادی اور خود مختاری کا حقیقی تحفظ نئی نسل ہی کی بدولت ممکن ہو پاتا ہے۔ اگر نئی نسل متحد اور چوکس ہو تو دشمن اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ کسی بھی طور نہیں پہنا سکتا.
لیکن آج نشے کے تاجروں کے ذریعے نئی نسل کو مختلف نشوں کی عادت میں مبتلا کرنا اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ کسی ملک کی نئی نسل منشیات کی عادی ہو جائے نتائج انتہائی خطرناک ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف تو دنیا بھر میں منشیات کے خلاف بھر پور مہم چلائی جارہی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کو ہر طرح کی منشیات سے بالکل پاک کرکے نوجوانوں کو مکمل تباہی سے بچایا جائے اور دوسری طرف منشیات کا مافیا نئی نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور یہ منشیات کی غیر قانونی تجارت سے کروڑوں کماتے ہیں ۔ نوجوانوں کو ہیروئن، کوکین، چرس، گانجا، افیم اور نہ جانے کتنے طرح کے نشے میں مبتلا کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ اور نئی نسل کا منشیات کی لت میں مبتلا ہونا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں آگے چل کر ملک کو افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اور سوال صرف معاشی نقصان کا نہیں ہے بلکہ نئی نسل کو منشیات کی لت میں مبتلا کر کے کسی کام کا نہ رہنے دیا جائے ۔ جب نئی نسل منشیات کی عادی ہوگی تو معاشرتی خرابیاں بھی پیدا ہوں گی اور اس کے نتیجے میں پورے معاشرے میں بگاڑ پھیلے گا۔ معاشرے کی بنیاد ہلانے میں اور نئی نسل کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ذاتی طور پر میں نے خود اس بات کا جائزہ لیا خواہ وہ رمضان المبارک کے ایام ہو یا ایامِ دیگر شہر کی ہر وہ ہوٹل جس نے بڑا اور وسیع گراؤنڈ تمام تر سہولیات سے آراستہ مثلاً فری وائے فائے، واش روم، ساؤنڈ سسٹم، پولس سے بچ کر بھاگنے کا خفیہ راستہ، ہوٹل میں ہی مٹھائی اور پان ٹپری اور پیر سیدھا کر کے بیٹھنے کے لئے زائد کرسیاں جس پر وہ تین چار گھنٹے مسلسل موبائل میں گیم اور ریل وڈیوز دیکھنے کے مناظر ملتے ہیں ان مقامات پر بیک وقت تین چار سو نوجوانوں کا ہجوم نظر آتا ہے رمضان کی ایک شب میرا اتفاق ہوا شہر کی ایک ہوٹل کا میں نے نوٹ کیا کہ کوئی ایک شخص ایسا نظر نہیں آیا جس کی عمر 45 اور 50 سال ہو تمام نو عمر افراد کا ہجوم تھا
تب ہی ذہن میں یہ خیال گونج اٹھا کہ نشہ کی عادت ان مقامات سے زیادہ شروع ہورہی ہیں شاید اول تو یہ چھوٹے نشوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر....... بہرکیف نشہ نشہ ہوتا ہے، اب اس بات سے بھی والدین و سرپرست انکار کر ہی نہیں سکتے کہ یہ بھی ایک نشہ ہے کہ مجھے آئی فون اور اسی طرح کے بڑے فون چاہیے جس کے نتیجے میں وہ ایک بڑی بیماری کو خریدتے ہیں دیکھیے کس طرح آج انٹرنیٹ اور موبائل فونز نے دنیا کو تبدیل کردیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی بدولت آج فاصلے ختم ہوگئے ہیں اور دنیا کو ایک گلوبل ولیج کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں آپ سیکنڈز میں انفارمیشن ایک دوسرے سے شیئر کرسکتے ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق آج کے انٹرنیٹ میں اسمارٹ فون کا حصہ تقریباً 60 فیصد ہے۔ آج انٹرنیٹ اور موبائل فونز ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئے ہیں اور اب کچھ ایسا لگتا ہے کہ شاید ساری قوم اور خصوصاً نوجوان نسل نومو فوبیا (Nomophobia )کا شکار ہو رہی ہے۔
نومو فوبیا ایک ایسی بیماری کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص موبائل فون کے بغیر اپنے آپ کو خوف زدہ یا بے حد بے چین محسوس کرے۔ نوموفوبیا کی شکار نوجوان نسل ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے مسائل اور مصائب کا شکار ہورہی ہے، جیسے کہ وقت کا زیاں، بے مقصدیت، ذہنی انتشار، چڑچڑا پن اور اخلاقی بے راہ روی وغیرہ۔
تعلیم کے حصول کےلیے موبائل فونز کا استعمال قطعی طور پر غیر مناسب نہیں ہے لیکن اس کا بے جا اور غلط استعمال ہماری نوجوان نسل کےلیے بہت سے مسائل پیدا کررہا ہے۔ ایک خطرناک رجحان جو آج کے والدین میں بھی دیکھا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں جن کی عمریں سات سال سے بھی کم ہوتی ہیں اُن کے ہاتھ میں بھی یہ اسمارٹ فونز دے دیتے ہیں اور فخر سے دوسرے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اُن کے بچے اسمارٹ فونز آپریٹ کرسکتے ہیں۔ حقیقت میں ایسے والدین بھی نئی نسل کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔
جہاں انٹرنیٹ اور موبائل فونز نے فاصلے کم کیے ہیں، وہیں ہمارے رشتوں میں فاصلے بہت طویل کردیے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہر دوسرا شخص اپنے فون میں مصروف رہتا ہے اور آپس میں بیٹھ کر بات کرنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ ذرا غور کیجئے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ اس موبائل فون نے ہمیں اور خاص طور پر نئی نسل کو اپنی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ اصولاً ہمیں موبائل فون کو آپریٹ کرنا چاہیے لیکن اب آپ ذرا غور کریں گے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ موبائل ہمیں آپریٹ کررہا ہے۔
نوموفوبیا کی شکار نوجوان نسل جس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے وہ بہت تیزی سے ایک ایسی سمت کی طرف جارہے ہیں جس کا نتیجہ صرف اور صرف تباہی و بربادی ہے۔ کوئی بھی ذی شعور انسان ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں ہوسکتا لیکن کسی بھی چیز کا غلط استعمال اُسے بربادی کی طرف لے کر جاسکتا ہے۔ اگر آج ہم یہ طے کرلیں کہ کسی طرح ہم نے اپنے نوجوانوں کو ملک کےلیے مفید بنانا ہے تو والدین اور اساتذہ کو خود رول ماڈل بننا ہوگا ورنہ ’’تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔ بحثیںت ایک معلم اس بات پر بھی روشنی ڈالتا چلوں کہ ایک استاد اپنے شاگردوں کےلیے رول ماڈل ہوتا ہے اور یہ بات ہمارے پیارے نبی محمدؐ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھا سکتا تھا۔ ویسے تو آپؐ کی معلمانہ طریقوں کی ایک بہت بڑی فہرست ہے لیکن میرے خیال میں اگر آج کا معلم صرف آپؐ کی صرف ایک صفت یعنی ’’علم و عمل‘‘ کو اپنالے تو وہ وطنِ عزیز میں بہترین افرادی قوت مہیا کرنے میں اپنا اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ہر علم جس پر عمل نہ ہو وہ وبال ہے‘‘۔ ایسا معاشرہ جس میں علم کی فراوانی ہونے کے باوجود عمل کی کمی ہو وہ سماج کبھی بھی پرسکون نہیں ہوسکتا۔ اللہ پاک ہمیں علم کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی توفیق عطا کرے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں